اس بلاگ میں سے تلاش کریں

Friday, November 16, 2012

یہ دیکھ مرے ساتھ وفا کون کرے گا؟

یہ حقیقت ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے کہ ملک میں جب بھی سیاسی میدان گرم ہوتا ہے انتخابات قریب آتے ہیں تو ہر سمت سے سیاسی قائدین کے عوامی خدمت کے دعوے شروع ہو جاتے ہیں۔عوام کے ساتھ رابطہ کر کے بڑے بڑے وعدے کئے جاتے ہیں۔عوامی تقدیر کے بدلنے کی جھوٹی نویدیں سنائی جاتی ہیں۔وفا نبھانے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔ مگر یہ تمام وعدے اور یقین دہانیاں وقت کی گرد کے نیچے دب جاتی ہیں۔اور عوام کے حصے میں مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ایک طویل عرصے سے عوام مذکورہ صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔بے بس عوام ہر نئے موڑ پر،اک نئے قاتل کے ہاتھوں نیا زخم کھا کر ،نئے ارمانوں کا خون کرواتی ہے مگر آج تک ہی ستم ظریفی ماند نہیں پڑرہی۔قوم ہر بہروپییے کے نئے روپ سے دھوکہ کھا کر اس کے قدموں میں اپنی چاہتیں ،محبتیں اور عقیدتیں نچھاور کرتی رہی ہے۔ قوم کسی قائد اعظم ثانی کے انتظار میں تڑپ رہی ہے۔ اسی لیے میں نے عرض کیا ہے کہ 
منتظر ہے سر زمیں کسی گوہر نایاب کی
قائد اعظم ،سرسید ،بن قاسم و اقبال کی
مگر مدتیں بیت جانے کے باوجود کوئی ایسا مرد مومن ابھر کر ایوانوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکا۔جو قوم کے مفادات کا محافظ ہو،جس کے گفتار و کردار میں یکسانیت پائی جاتی ہو، جس کا مقصد حصول اقتدار نہ ہو، بلکہ عوامی خدمت کا موقع حاصل کرنا ہو۔جس کے دل میں عوام کا درد بسیرا کرتا ہو،جس کی نگاہیں دارالحکومت کی چمکتی سڑکوں سے چکا چوند ہو کر غریب عوام کی اندھیری جھونپڑیوں کو دیکھنے سے قاصر نہ ہوجائیں۔جو خود کو سیر ہو کر بھوک سے بلکتی انسانیت کو فراموش نہ کر بیٹھے۔جو رقص و سرود کی مجالس میں کھو کر بے بس انسانوں کی چیخوں اور سسکیوں کو بھلانہ دے۔ جو بسنت کی بہاروں کی رونق میں مسرور ہو کر اجڑے گھرانوں کے دکھ فراموش نہ کر دے۔جو ایوانوں کی رونقوں میں محو ہو کر شہر خموشاں کی ویران تنہائیوں سے بے بہرہ نہ ہو جائے۔ جو اپنی ملی ثقافتی اقدار سے محبت کرنے والا ہو اور اپنے نظریہ حیات کو بھی ٹوٹ کر چاہنے والا ہو۔ جو اپنی دینی اور قومی اقدار کا محافظ ہو ۔ جو عالمی حالات پر گہری نظر بھی رکھتا ہواور عالمی سطح پر اپنے ملی اور مذہبی نظریات کے تحفظ کی جنگ جراتمندی سے لڑنے کی سکت بھی رکھتا ہو اور جس کے کردار میں قائد اعظم جیسی جرات دکھائی دیتی ہو ۔ جس کا مکا شہید ملت کی طرح صرف اور صرف دشمن کے خلاف ہی فضاوں میں لہرائے۔کئی دہائیوں پہ محیط ہماری تاریخ میں مذکورہ بالا دعوے اور بصیرت تو انتہائی جوش اور تپاک سے سنائی دیتے رہے ہیں مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہو پایا۔گفتار اور کردار میں اسی فرق نے عوام کو مایوسیوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔عوامی دلوں میں حب الوطنی کے جذبات شدید طور پر مجروح ہو چکے ہیں۔ اسی نامیدی کی فضانے خود عوام کے اندر علاقائی تعصب کو جنم دیا ہے اسی تعصب کی بنیاد پر بعض ملک دشمن عناصر اغیار کے ہاتھوں میں کھیل کر وطن عزیز کے شرق و غرب میں شورش کی صورتحال پیدا کرنے کی منحوس سوچ اپنے دل و دماغ میں بسانے کی جسارت کر نے لگے ہیں۔استعماری قوتیں ہمارے پیارے دیس کے خلاف سازشوں کے جال بچھانے میں مصروف ہو چکی ہیں مگر ہماری سیاسی قیادت کی آپس کی چپقلش نے قوم کی توجہ ان خطرات کی طرف ہونے ہی نہیں دی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دشمن کی گھات سے بے خبر ہو کر آپس میں ایک دوسرے سے خلاف صف آرا ہو چکے ہیں ۔ اپنے دین سے دوری اور ملی اقدار سے بیگانگی کا رجحان بھی ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔یقیناًاب قوم کے لیے حب الوطنی کے نعرے یا اسلام پسندی کے دعوے کو ئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ قوم کو لوٹنے والے ان سب بھیسوں میں آکر ملت سے اقتدار کی بھیک مانگ چکے ہیں ۔مذہب پسندی کے نعروں سمیت معاشی، معاشرتی اور نظریاتی حفاظت کے تمام مقدس نعروں کو حصول اقتدار کی جنگ میں بری طرح پامال کیا جا چکا ہے اس لیے دابارہ عوام کو اسی دھوکے میں رکھنا مشکل نظر آتا ہے۔دوسری طرف قحط الرجال کی صورتحال بھی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، تاہم کسی بھی معاشرے میں اچھے اور مخلص لوگوں کی کمی نھیں ہوا کرتی ۔مسئلہ فقط ایسے لوگوں کو سامنے لانے کا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں ہمارے ملک میں معقول حد تک ایسے لوگ موجود ہیں جو خالص قومی خدمت کے جذبے سے سر شار ہو کر سامنے آتا چاہتے ہیں یا آ سکتے ہیں مگر ان کی شرافت یا معاشی مسائل آڑے آ جاتے ہیں۔یا پھر پارٹی بازی کا بندھن توڑنا مشکل نظر آ تا ہے۔علاوہ ازیں ہم سیاست کو دین سے جدا سمجھ بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے بعض مخلص دینی قوتیں بھی اپنے سیاسی کر دار کو معیوب تصور کرتی ہیں۔ اس طرح حقیقی دیندار قیادت اپنی مذہبی ساکھ کو متاثر ہونے کے خدشے کے پیش نظر سامنے نہیں آتی۔ یہی وجوہات مخلص قیادت کے خلا کا باعث بنی ہے۔یہ حقائق ہماری قومی سوچ کے فروغ کا تقاضا کرتے ہیں۔اسی صورتحال میں ملک کے میڈیا سمیت باشعور لوگوں پر یہ ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ افرادملت کے قلوب و اذہان میں سیاسی شعور پیدا کریں ۔ تا کہ زیادہ سے زیادہ مخلص اور محب وطن لوگ سیاسی میدان میں اتر کر مخلص قیادت کے فقدا ن کو ختم کر سکیں تا کہ ملک کے جمہوری ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قوم کرپٹ لوگوں کو مسترد کر کے صالح قیادت کو منتخب کر سکے ،کیونکہ اب یہ پوری قوم مشترکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں تھمائے جو ملک کے خادم بننے کا جذبہ رکھتے ہوں اور جو اپنے قائدین کے نظریات اور جذبات کے امین ہوں۔وطن عزیز کو اکثر مفاد پرست لوگوں سے ہی پالا پڑا ہے مگر اب مزید امتحانوں سے گزرنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ قوم کے بہت سے ارمانوں کو ذبح کیا جا چکا ہے۔کئی پاکیزہ سپنوں کے شفاف آبگینوں کو ریزہ ریزہ کیا جا چکا ہے۔ کئی ظلمت کش امیدوں کے چراغ گل ہو چکے ہیں ، اب کی بار اس دھرتی کا گوشہ گوشہ وفاوں کی تشنگی کا اظہار کر رہا ہے۔ اس تشنگی کو بجھانے کے لیے اب ہم میں سے ہی صاحب استطاعت ، باہمت اور محب وطن لوگوں کو سامنے �آ کر سماج دشمن اور اپنے نفس کے اسیر دھوکہ باز لوگوں کا راستہ روکنا پڑے گا ۔اب منتخب کنندگان عوام کو بھی بیدار مغزی کا مظاہرہ کر نا پڑے گا تاکہ اب کی بار مفاد پرست لوگ ملک کے ایوانوں تک رسائی حاصل نہ کر سکیں۔آئیے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اس پاک سر زمین کی صداوں پر غور کریں جو ہر لمحہ ہمارے ضمائر کو جھنجھوڑ رہی ہیں ۔ جس کو ایسے لوگوں کا انتظارہے۔ جو اپنی ذاتیات کی نفی کر کے اپنے دیس کے تحفظ کا فریضہ انجام دے سکتے ہوں ۔ جو وفاؤں کے تقدس سے آگاہ ہوں۔ مری اس پاک سر زمیں کی ایسی ہی پکار کی گونج کسی شاعرکے ان کلمات میں بھی سنائی دے رہی ہے۔
ہستی کو محبت میں فنا کون کرے گا ؟
یہ فرض زمانے میں ادا کون کرے گا؟
ہاتھوں کی لکیروں کو ذرہ دیکھ نجومی
یہ دیکھ مرے ساتھ وفا کون کرے گا؟

گو زرداری گو تحریک ،نورا کشتی کا نیا راؤنڈ

موجودہ پارلیمانی سیشن جواپنی مدت پوری کرنے والا ہے ماضی کے مقابلے میں بہت سرد رہا۔سیاسی قوتوں کی قلابازیاں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے کی کوششیں نظر آئیں ۔اگرچہ ذاتی مفادات کی بنیادپر سیاسی جماعتوں کا حکومت میں آنا جاناجاری رہا۔مگر صدر آصف علی زرداری کی دروازہ کھلا رکھنے کی پالیسی نے اس عمل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ کی۔اس کا بھر پور فائدہ MQMنے اٹھایا۔علاوہ ازیں دیگر چھوٹی بڑی جماعتیں بھی اس حکمت عملی سے مستفید ہوتی رہیں۔تقریباًسب جماعتوں نے دربار حکومت کا چکر لگایااور اپنے اپنے مفادات سمیٹنے کے بعدکچھ واپس آگئیں،کچھ اس گیم کا آخر تک حصہ بننے کا ارادہ رکھتی ہیں۔سیاست کے پورے کھیل میں اپوزیشن کا کرداربہت اہم ہوتا ہے مثبت اور سخت اپوزیشن کی وجہ سے حکومت کوہر قدم اٹھانے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے۔اسے اپنی پالیسیوں کا دفاع بھی کرنا پڑتا ہے اور اپنے وجود کوبرقرار بھی رکھنا پڑتا ہے اس سیشن میں اپوزیشن لیڈر شپ کا تاج مسلم لیگ (ن )کے سر سجامگراس دورانیے میں ہم اس پارٹی کی سیاسی حکمت عملی کاجائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ (ن)لیگ نے فرینڈلی اپوزیشن کے تمام تقاضے پورے کئے اور حکومت کو ذرہ بھر زحمت بھی نہ دی۔اس کے نتیجے میں مقتدر حلقوں کو کھل کر کھیلنے بلکہ کھل کر کھانے کا موقع مل میسر آگیادوسری طرف (ن)لیگ کو اپنی باری ملنے اور ایک صوبائی حکومت کے مزے لوٹنے کے واضح امکانات نظر آنے لگے ۔یوں ملکی خزانہ لٹُتا رہا،خون بہتا رہا،لاشیں گرتی رہیں،دشمن خطہ ء پاک پر جڑیں مضبوط کرتارہااور کچھ سیاسی جماعتیں اپنی باری بھگتنے اور کچھ باری کے انتظار میں مصروف رہیں۔بہت سے ایسے مواقع آئے جب حکومت نے عوامی امنگوں اور ملکی مفادات کا جنازہ نکالامگر کوئی لیڈر شپ ایسی نہ ملی جو عوامی خواہشات کی ترجمانی کرتی ۔یوں پبلک میں یہ یقین محکم ہو گیا کہ یہاں ہر اپوزیشن اپنے کردار سے غافل اور مفادات کے نشے میں دھت ہے۔اب جبکہ الیکشن قریب ہیں اور اپوزیشن کو احساس ہوا ہے کہ اب عوام کو منہ دکھانے کا موقع آگیا ہے ۔اس لئے (ن)لیگ نے بعض نمائشی اقدامات کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔مگر یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اب عنقریب جو اپوزیشن نظر آئے گی اور حکومت پر کڑی تنقید کی جائے گی،اس کا حدف حکومت نہیں بلکہ عوام ہو گی کیو نکہ اب احساس پیدا ہو چکا ہے کہ عوامی فکر کو بدلنا اورعوام کی نظر میں اپنا مقام بنانا بہت ضروری ہے۔اس سلسلے میں(ن)لیگ نے اندرونی جوڑ توڑ کے علاوہ عوامی رابطہ مہم چلانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے ۔’’اس تحریک کو گو زرداری گو‘‘کا نام دیا جا رہا ہے مگر عوام اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے کہ اب سچ مچ مو جو دہ حکومت سے چھٹکارہ مل جائے گا ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ اس نورا کشتی کا اگلا راؤنڈ ہے،جو ہر اس موقع پر برپا کی جاتی ہے۔ جب خود کو عوام میں ’’ان‘‘ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یوں موجودہ تحریک کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ تحریک حکومت ہٹانے کے لیے نہیں،عوام کو دکھانے کے لیے ہے۔ اور اس تحریک کے نتیجے میں زرداری صاحب اسی وقت جائیں گے، جب ان کا عرصہ پورا ہو جائیگا۔ نورا کشتی کا یہ راؤنڈ شاید زرداری صاحب کا دورانیہ پورا کرا دے گالیکن ہو سکتا ہے، ن لیگ کے دامن پہ لگا فرینڈلی اپوزیشن کا داغ نہ مٹا سکے۔

خرچ تدفین کا لگ جاتا ہے بیماری پر

غربت انسانیت دشمن بیماری ہے اس غربت نے ہمیشہ سے انسانی معاشرے میں اپنے پنجے گاڑھے رکھے ہیں غربت نے ازل سے طبقاتی تقسیم کو فروغ دیا پھر امیر کے ہاتھ مضبوط کیے ۔ اس کے عیبوں اور خوبیوں پر پر دہ ڈالا ۔ اس میں فرعو نیت کو اجاگر کیا یوں اس ظالم طبقے کو غربت طبقات پر حکمرانی کا اختیار سونپ دیا ۔ 
معاشرے میں طبقاتی تقسیم کے فروغ میں سرمایہ دارانہ نظام معیشت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ امیر کی امارت میں اضافہ کرکے اس کو لازوال دنیاوی بادشاہی سے نواز دیا غریب کی غربت کو بڑھایا اس کو کمزور سے کمزور ترکیا اور مجبور کر دیا کہ یہ غریب طبقہ امیر سرمایہ دار کی غلا می قبول کرلے یا موت کے منہ میں چلا جائے ۔ سرمایہ دارنہ نظام کی وجہ سے سرمایہ چندہی ہاتھوں میں جمع ہو جاتا ہے انسان کا فطری لالچ پروان چڑھتا ہے اور انسان حیوانیت کے روپ میں ڈھل کر معاشرے کے لیے گھمبیرمسئلہ بن جاتا ہے ۔ لالچ اورسرپرستی کے نشے میں دھت یہی انسان سرمایہ دار بن کر آج معاشرے پر راج کر رہا ہے ۔ جبکہ غریب آج مزدور بن کر اس ظالمانہ نظا م معیشت کی چکی میں پس رہا ہے ۔ 
پیش نظر رہنا چاہیے آج ہم جس مزدور کی مظلومیت کا تذکرہ کر رہے ہیں اس میں صرف وہ طبقہ شامل نہیں ۔ جو کڑی دھوپ میں اینٹ پتھر اور گارا اٹھا کر سرمایہ داروں کی محفو ظ اور آرام دہ پنا ہ گاہیں تیا ر کرتا ہے ۔بلکہ اس میں وہ طبقہ بھی شامل ہے جوبینک میں بیٹھ کر غیر شرعی اور سودی کاروبار کا حساب کتاب کرنے پہ مجبور ہے ۔اس میں وہ طبقہ بھی ہے جو اس معاشرے کی درس گاہوں میں جا کر سرمایہ داریت زدہ نصاب تعلیم پڑھاتا ہے ۔ حتی کہ اس میں دین کا نام لینے والا وہ مزدور بھی شامل ہے جو اسی ظالم معاشرے کے اس ظالم طبقے کی پیدائش پہ اذان ، جوانی میں نکاح اور مو ت پر نما ز جنازہ بھی ادا کرتا ہے ۔ لیکن اس کے بدلے میں یہ مزدور کیا حاصل کرتا ہے چند سکے اور 24گھنٹے کی غلا می اوربس۔
مئی کے مہینے کی ابتدا لیبر ڈے سے کرنے والے ان ظالم سرمایہ داروں کی دورنگی پہ صدا فسو س کہ اس دن تما م لیبر یو نینز کو اکٹھا کر کے نعرے تو لگوائے جاتے ہیں ۔ مگر ان پسے ہوئے طبقات کے حقوق و فرائض کا تعین نہیں کیا جاتا ۔ نہ ہی مزدور کے فرائض کی کوئی حد ہے اور نہ ہی اس کے حقو ق کا کوئی پیمانہ ایک بوڑھا اپنی پوری عمر مزدوری میں گزار دیتا ہے ۔ مگر اسے پنشن کی کوئی امید نہیں ہوتی ۔ وہ بو ڑھا اور قرب المرگ ہونے کے باوجود یہ محسو س کرتا ہے ۔ 
مجھکو تھکنے نہیں دیتا ہے ضرورت کا پہاڑ 
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے 
مگر اس معاشرے میں شاید کوئی ایسا نہیں جو اس بے زبان مجبور بوڑھے مزدور کا سہارا بنے 
محرومی کے لگے زخموں پہ مرہم رکھے ۔ بلکہ معاملہ یہ ہے کہ اس مظلوم غریب کی غربت اورمجبوری کا مذا ق اُڑا کر اس کی خامیاں گِنوا کر اسے احساس کمتری کا شکار کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس نادار کو احساس محرومی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے ۔
یہ احساس محرومی اس وقت جوان ہو جاتا ہے جب غریب امیروں کی شہ خرچیاں اور عیش و عشرت کے انداز کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ :۔ 
عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں 
لگا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں 
غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو 
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں 
دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی کا شو ر مچانے والا طبقہ اس حقیقت کو فراموش توکر دیتا ہے کہ قدرت آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ وسائل میں بھی اضافہ کر دیتی ہے درحقیقت دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ وسائل کی کمی یا آبادی میں اضافہ نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ دولت کی غیر منصفانہ اور غیر متوازن تقسیم اور گردش زر کی کمی ہے تمام سرمایہ اور دنیا کے سب وسائل چند ہاتھوں میں ہیں اور دنیا کا سرمایہ دار طبقہ ہی ان پر قابض ہے ۔ جس کی بدولت زر کی گردش رک گئی ہے اور کچھ ایسے واقعات ظہور پذیر ہور ہے ہیں کہ: ۔ 
گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب 
بیٹی کسی مزدور کی فاقوں سے مرگئی 
اگر ہم غربت کا تذکرہ ہی جارہی رکھیں تو اس مظلوم نسل کا ذکر ضرور کروں گا جو غربت کی وجہ سے اپنا اعتماد ، اپنی عزت نفس اپنی زندہ دلی کھو دیتی ہے ۔ دن بھر مجبور ہوکر مزدوری کرنے والا مزدورجب اپنی مشقت سے کہیں کم مزدوری لے کر اپنے بچوں میں لوٹتا ہے تو اس کے چہر ے پر مایوسی ،غم ، غصہ اور خشک مزاجی عیا ں ہوتی ہے اس کے رویے بھی ان معصوم بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں جنھوں نے ابھی پر وان چڑھناہے جنھوں نے مضبوط اعصاب اور خو د اعتمادی کے ساتھ اپنی دینی و ملی غیرت کی حفاظت کرنی ہے ۔
مگر یہی غربت ان کے اس اعتماد اور زندہ دلی کو نگل لیتی ہے ۔ ان کی سب سے بڑی خو شی روٹی کامل جانا ہے اور سب سے بڑی شرارت چپکے سے کسی کا کھانا چر کے کھا لینا ہے اور شاعر کی زبان سے ہم یوں کہہ سکتے ہیں :۔ 
غربت نے میرے بچوں کو تہذیب سکھا دی 
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے 
بچوں کی یہی مجبور فطرت جب معاشرے سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیتی ہے تو معاشرے میں ظلم اور بربر یت جنم لیتا ہے ۔ غریب کا بس امیر پہ تو چلتا نہیں ، چنانچہ غریب ، غریب کے ساتھ پنجہ آزما ہو جاتا ہے یوں ظالم اور مظلوم دونوں غزیت کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں کبھی کبھار تو یوں بھی ہوتا ہے کہ:۔
اک نوالے کے لئے میں نے جسے مار دیا
وہ پرندہ بھی کئی روز کا بھوکا نکلا 
اس گھٹن کے ماحول میں پل کر ایک ایسی نسل پروان چڑھتی ہے جو معاشی بحران سے محفوظ اپنے مستقبل کے لیے مخلوق پر نگاہ گاڑھ لیتی ہے ۔اپنی مجبوریاں اپنے غم اپنے ملال اور اپنی کمزوریاں دوسروں کے سامنے رکھ کر کچھ صدقات سمیٹنے کا موقع حاصل کرتی ہے اپنے اس دکھ اور ملال کے عوض چند سکے حاصل کرنا کسی صحت مند معاشرے کی دلیل نہیں یہی پالیسی معاشرے کے غریب طبقات سے لیکر ایوان اقتدار تک رائج ہے جہاں قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان آفات کے تذکرے چھیڑ چھیڑ کر اور اغیار کو اپنے زخم دکھا کر ڈالر اکٹھے کیے جاتے ہیں ایک غریب اور مزدور کی زندگی میں ایسے مواقع باربار آتے ہیں جن کو ایک شعر میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے ۔ 
مفلسی میں وہ دن بھی آئے ہیں 
ہم نے اپنا ملال بیچ دیا 
مزدور کے ساتھ غریب اور غربت کا ذکر کرنا اس لیے ضروری تھا کہ ہمارے ہاں محنت کش اور مزدوہے ہی وہ شخص جو غریب ہے اور مزدور غریب اس لیے ہے کہ وہ استحصالی نظام کے پنجوں میں جکڑا ہوا ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام معیشت نے جہاں معاشی مسائل پیدا کیے ہیں وہیں ہماری روحانی اور ذہنی افکار اور روایات کو بھی بری طر ح متاثر کیا ہے ۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں لیبر ڈے منانا اس وقت تک مفید نہیں ہو سکتا جب تک ہم اس نظام کے خلاف نبرد آزما نہیں ہوجاتے ۔ اور اسلام کے ان اُصولوں کی طرف رجوع نہیں کر لیتے جنھوں نے معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کی حفاظت کی ہے ۔ اسلام ہی وہ نظام ہے جس نے درس دیا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو ۔ مزدور پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جس کو اٹھا نے کی وہ طاقت نہیں رکھتا ۔ مزدور کو اس سے کچھ زائد بھی دے دہ جو آپ نے اس کے ساتھ طے کیا ہے ۔ ہاتھ سے کام کرنے والے محنت کش کو اللہ کا دوست ( محبوب ) ہونے کی خو شخبری بھی اسلام نے دی ہے تاکہ معاشرے میں محنت اور لیبر کو فروغ دے کر طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہو ۔ 
اگر آج ہم نے اس نظام سے پیچھا نہ چھڑا یا تو ہم تادیر غربت کی دلدل سے نکل نہیں پائیں گے ۔ ہمارا مزدور لٹتا رہے گا امیر حکومت کرتا رہے گا اور جبکہ غریب مجبور مایوس ہو کر اور غربت کواپنی قسمت سمجھ کر یہی دعائیں کرتارہے گا ۔ 
صحن غربت میں قضا دیر سے مت آیا کر 
خرچ تدفین کا لگ جاتا ہے بیماری پر 

آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو

اجتماعی طور پر پاکستان کی حیثیت ہمارے لیے ایسی ہے جیسا کہ ایک گھر کی اہمیت ایک فردِ خانہ کیلئے ہوتی ہے ۔ اگرچہ استعماری قوتیں کچھ سیکولر ، کچھ نام نہاد مذہب پسند اور بعض نا دیدہ ہاتھوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان اور پاکستانیوں کی اس فطری نسبت کو کمزور کرنے کے درپے ہیں ۔ تاہم اس بات سے انکار نہیں کہ پاکستان کی بقاء خطہ برصغیر میں اسلام کے جداگانہ تشخص کیلئے ضروری ہے اور مسلمانوں کی فلاح بھی اسی بات میں ہے کہ پاکستان قائم رہے اور مسلمان اس پاک دیس کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظ رہیں ۔
پاکستان کے خلاف ہمہ پہلو اور بھیانک سازش تیار کی جاچکی ہے اور اس پر عمل بھی کیا جارہا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ سیکولر و مذہبی قوتوں کو الگ الگ نعرے دیئے گئے اور اُن کو معاشرے میں سرایت کرنے کا موقع دیا جارہا ہے ۔ پاکستان کے سخت گیر اور غیر متعصب فکر کے حامل مسلمانوں کو اپنے اس گھر سے فطری محبت کرنے کے جرم میں عصبیت کا طعنہ دیا جاتا ہے ۔ پاکستان کے خلاف جذبات کو ابھار کر آئین شکنی کا درس دیا جاتا ہے ۔ تاکہ اہل پاکستان کے درمیان بے چینی اور اور ملک سے نفرت کے نہ صرف جذبات پیدا کئے جائیں بلکہ ملک کے خلاف انہی مسلمانوں کو عملی جدوجہد کیلئے تیار بھی کیا جائے ۔
کچھ مسلمان ایسے بھی ہیں جنکو ملائیت نے پہلے ہی تعصب اور فرقہ واریت کے مہلک پنجوں میں جکڑ رکھا ہے ۔ا ن سب مسلمانوں کو بھی جمع کیا جا رہا ہے ۔ ہم اپنے سیاسی افق پر دیکھ رہے ہیں کہ دو مختلف المسلک گروپوں کو بہت تیزی سے مضبوط کیا جارہا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ان دونوں گروپوں کو منظم کر کے آپس میں لڑا دیا جائے گا اس تصادم میں مذہبی قوتیں بدنام ہو کر کمزور ہو جائیں گی ۔ یوں سیکولر پاورز کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل جائے گا ۔ اور ہم واضح دیکھ رہے ہیں کہ سیکولر پاورز پہلے ہی علاقائیت ، صوبائیت ، لسانیت اور ثقافت کے نام پر پاکستان کی فیڈریشن سے الگ ہونے کا منحوس نعرہ لگا رہی ہیں یوں غیر متعصب مذہبی ، فرقہ پرست مذہبی اور سیکولر قوتیں اور ان کے نظریات سے منسلک عام مسلمان جب پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑنے کی بجائے اپنے فرقے ، اپنے نظرے یا اپنے علاقے اور زبان کی بقاء کی جدوجہد شروع کردیں گے پھر ایسی خاموش اکثریت پاکستان کی بقاء کی ضامن بن جائے گی جس کو کھوکھلے نعرے لگانا یا دیگر غداروں کی طرح منافقت کرنا تو نہیں آتا مگر یہ اکثریت غیرت کے جذبے سے ضرور سر شار ہے اور اپنے گھر کی حفاظت کرنا خوب جانتی ہے ۔ 
اب ان محب پاکستان مسلمانوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ بھی شاید کیا جا چکا ہے اور ان کے دلوں سے جذبہ حب الوطنی کو سرد کرنے کی سازش ہو رہی ہے ۔ اس سازش کے تحت عام پاکستانیوں کو تمام سہولیات سے محروم رکھ کر کمر توڑ مہنگائی کی چکی میں پیسا جارہا ہے ۔ ہو سکتا ہے یہ سخت کو ش قوم خطے میں اسلام کی بقاء کے لیے یہ دکھ جھیلتے رہنے کو تیار ہو جاتی اس لیے ایک اور بھیانک سازش تیار کر لی گئی اور یہ سازش ہے عدم تحفظ پیدا کرنے کی سازش ۔
اس سازش کے تحت اپنے ہی ہم وطنو ں کے خلاف اپنی افواج کو لڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ اغیار کے ہاتھوں ڈرون حملے کروا کر گھروں کے اندر موت کا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ اور محض شک کی بنیا د پر اپنے ہی وطن میں اپنے ہی لو گوں کو نادیدہ ہاتھوں کے زور پر اغواء کیا جارہا ہے ۔ انہی اغواء شدگان کے لواحقین آجکل اسلام آباد میں ڈیرے لگائے بیٹھے ہیں ۔ احتجاجی کیمپ لگا ہوا ہے ۔ مردہ ضمیر حکمران اور سیاستدان آتے ہیں ، مظلوموں کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔ ہم یہ اخبارات ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کی خبریں سنتے ہیں اور اپنے کاروبارِ حیات میں لگ جاتے ہیں ۔ 
یہ معاملہ سنگین اس لیے محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس عظیم سازش کی حقیقت اور مضمرات سے بھی لاعلم ہیں اور اس کے ایک ایک لمحے کے دکھ سے بھی لاتعلق ہیں اور ان مجبور اور بے بس مسلمانوں پہ قیامت بن کر گزر رہا ہے موت تو برحق ہے ۔ موت آتی ہے صدمہ پہنچاتی ہے اور وقت اس صدمے سے لگے زخم پر مرحم رکھ دیتا ہے لیکن نجانے یہ دکھ کیسا ہو گا جب ایک ماں بیک وقت اپنے بیٹے کی جدائی کا دکھ بھی برداشت کرتی ہے ۔ بیٹے کی سلامتی کی فکر بھی دامن نہیں چھوڑتی اور انتظار کی گھڑیاں بھی قیامت ڈھاتی ہیں ۔ جب ان ظالم حکمرانوں کی منافقت سے بھر پور تسلیاں اس ماں کی امیدوں کو شباب بخشتی ہیں اور پھر اچانک یہ آس کی کرنیں ، یاس کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں ڈھل جاتی ہیں تو نجانے یہ مظلوم مائیں اس کرب سے کیسے گزرتی ہونگی ۔ 
ہم اندازہ نہیں کر سکتے کہ ان اغواء شدگان کی بہنیں اپنے بھائیوں کے لیے کیسے کیسے سپنے دیکھتی ہونگی ۔ مگر آنکھ کھلتے ہی یہ خوابوں کے آبگینے کرچی کرچی ہو جاتے ہونگے ۔ پتہ نہیں کیسے یہ مظلوم بدقسمت بہنیں خود کو سمجھاتی ہونگی کہ 
صبح کے اجالوں میں ڈھونڈتا ہے تعبیریں 
دل کو کون سمجھائے کہ خواب خواب ہوتے ہیں 
ان بیٹوں اور بیٹیوں کی کیا حالت ہو گی جو ایک خوبصورت خواب میں اپنے والد سے ملتے ہونگے ، اس کے دامن سے لپٹتے ہونگے اس کو مضبوطی سے پکڑتے بھی ہونگے ۔ اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں پھر ہم جدا نہ ہو جائیں ۔ مگر ان بچوں کو کیا پتہ کہ خواب خواب ہی ہوتے ہیں جب وہ بیدار ہوتے ہونگے تو ان کی کیفیت کیا ہوتی ہو گی ان مظلوم خواتین کا کرب بھلا کو ن محسوس کر سکتا ہے جن کے شوہر کھو گئے ہیں اور ان کے بچے سراپا سوال ہیں کہ!
امی جان !
ابو کہاں گئے ہیں؟ 
ابو کب لوٹ کر آئیں گے ؟
نجانے یہ مظلوم خواتین اپنے بچوں کو کیسے بہلاتی ہونگی ۔ شاید ان مظلوموں کا دکھ تو حضرت یعقوب علیہ السلام ہی محسوس کر پاتے جو پیغمبر تھے ، بڑے عزم والے تھے پھر بھی بیٹے کی جدائی میں اپنی بینائی کھو بیٹھے تھے ۔ 
میں صرف اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہوں گا کہ ان مظلوم مسلمانوں کا بھی رب ہے ۔ ان مظلوم ماؤں ، بہنوں ، بیٹوں اور بیٹیوں کے دل سے بھی کوئی آہ نکلتی ہوگی ۔ ان کی زبان سے بھی تو کسی کیلئے بدعا نکلتی ہو گی اور سوال کرتی ہو گی کہ اس طرح کے مظالم میں ملوث ظالموں اور ان مظالم پر خاموش رہنے والے بے حس سیاستدانوں کہ تمہارے سینے میں دل نہیں ہے ؟
آئیے پاکستان کے ان محبان کو اس طرح کے مظالم سے دوچار کر کے پاکستان کے خلاف کرنے کی اس سازش کو ناکام بنا ئیں اور ان مظلوموں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں جو آج بھی سراپا سوال ہیں جنہیں محب وطن پاکستانی ہونے کی سزا مل رہی ہے۔جو اپنوں کی جدائی کا درد سہتے سہتے تنگ آ گئے ہیں جو اپنے کھوئے ہوئے پیاروں کویاد کر کرکے پکار رہے ہیں۔ 
آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے لگتا ہے کہ تم ہو

آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے

غیرت ایک فطری نعمت ہے ۔ قوموں کی زندگی میں حمیت اور غیرت روح کی حیثیت رکھتی ہے ۔ میر ے خیال میں قومی حمیت کے بغیر اقوام اقوام نہیں رہتیں بلکہ ایک ہجوم بن جاتی ہیں۔ ایک ایسا ہجوم جسے امریکہ جیسا بھیڑیا کبھی بھی آکر چیر پھاڑ ڈالے ۔
ماں ، بہن ، بیٹی وہ حساس ترین رشتے ہوتے ہیں جہاں پر آکر غیرت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنا شروع کر دیتا ہے ۔ اچھا خاصا باہوش انسان اس فطری غیرت کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے اور اپنی اس غیر ت کا مظاہرہ کرنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کر سکتا ۔ 
شاید یہی انسانی اور ایمانی غیرت تھی جو جواں سال مسلم سپہ سالا رجناب محمد بن قاسم کو عرب سے عجم تک ہزاروں سپاہ کے ہمراہ کھینچ لائی تھی ۔ کتنی طاقتور تھی اس وقت کی مظلو م ناہید ۔ جس کو ہند و راجہ داہر نے قیدی بنانے کی کو شش کی اور خو د ہی نیست و نابو د ہو گیا ۔کتنی خو ش قسمت تھی مظلوم ناہید جس نے محمد بن قاسمؒ جیسے مسلمانوں کے دور میں آنکھ کھولی تھی ۔
ذرہ سوچیے جب رکاوٹوں ، مسائل اور مشکلات کو اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے ،اسلام کا جری مجاہد محمد بن قاسمؒ دیبل(کراچی) تک آ پہنچا تھا اور مسلمانوں کا عظیم الشان لشکر اس کے ہمراہ اپنی بہن کی ردا کا محافظ بن کر ہندو بنئے پر ٹو ٹ پڑا تھا ، مظلوم ناہید خو د کو کتنا طاقتور تصور کررہی ہو گی ۔ اسلام کا جھنڈا کیسے سر بلند ہو کر لہرایا ہو گا۔ 
یہی غیرت کا عظیم الشان منظر تھا ، جو مسلمانوں کے عروج کا اصل سبب تھا ۔ ماضی کے اس روشن و تاباں باب کی مختصر سی جھلک دیکھنے کے بعد آئیے حال کے اس تاریک دور کا ذکر بھی کریں جو ہر صاحب داستان ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔ اہل اسلام کے پاکیزہ خون کی ندیاں ہیں ۔ جو سمندرکا روپ دھارنے کو ہیں ۔ اسلحے کی بارش ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی اسی طو فان ظلم و ستم میں ناہید کی داستان دہرائی جارہی ہے ۔ مگر اب کی بار یہ داستان نہایت ہی بھیانک شکل میں ہمارے سامنے ہے ۔ مظلومیت کی داستان اہل اسلام کی اس مظلوم بیٹی کی ہے ۔ جس نے 2مارچ 1972کو کراچی میں جنم لیا ۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا کا سفر کیا ۔10سال تک اسی ملک میں مقیم رہیں ۔2002میں Ph.Dکی سند اور بے شمار اعزازات لے کر واپس پاکستان آگئیں کچھ عر صے بعد نو کری کی تلا ش میں دوبارہ امریکہ کا دورہ کیا ور 2003میں وطن واپس لو ٹ آئیں ۔ یہ وہی بد قسمت مسلمان اور پاکستانی سائنسدان تھیں جن کے لہو سے مظلو میت کا نیا باب رقم ہونا تھا ۔ قوم کی اس مظلوم بیٹی کانام ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے ۔ 
اپنے دیس کی آزاد فضاؤں پہ نا ز کرنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی30مارچ 2003کو اپنے تین بچوں ( محمد احمد ، مریم بنت محمد ، اور سلمان) کے ہمراہ راولپنڈی جانے کے لیے ٹیکسی میں ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہوئی ۔ مگر انہیں راستے میں ہی اغوا کرکے امریکی فوجیوں کے حوالے کر دیا گیا ۔ اس وقت ان کی عمر 30سال کے لگ بھگ تھی اور ان کے سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر ایک ماہ تھی ۔ 
اس خفیہ کاروائی کے بعد ملکی وزراء اس واقعے سے لا علمی کا اظہار کرتے رہے ۔ تاہم عالمی اداروں نے شک ظاہر کیا کہ بگرام میں امریکی جیل میں موجود قیدی نمبر 650ڈاکٹر عافیہ ہی ہیں۔ میڈیا نے جب اس معاملے کا نوٹس لیا تو امریکہ نے اعلان کر دیا کہ ڈاکٹر عافیہ کو 27جو لائی 2008کو افغانستان سے گرفتار کرکے نیو یارک پہنچا دیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ ان سارے واقعات کے دوران کیا بیتی کفار نے اس کلمہ گو مظلوم مسلم خاتون کے پر کیا کیا مظالم ڈھائے ؟ اس کے سامنے قرآن کریم کی کیسے بے حرمتی کی جاتی رہی اور اب تک اس مظلوم بہن اور بیٹی پر کیا گزر رہی ہے ، یہ ایک الگ داستان ہے ، جس کو لکھتے ہوئے سچ مچ قلم ڈگمگا جاتا ہے ۔ الفاظ شر مندہ کرتے ہیں اور کاغذ قلم کے نیچے سے سرک جاتا ہے ۔
مارچ کے مہینے کو اس خاتون کے ساتھ خصوصی وابستگی ہے ، کیونکہ اسی ماہ کے ابتداء میں اس نے روئے ، زمین پر قدم رکھا اور اسی ماہ کے آخر میں اپنو ں نے پکڑکر غیروں کے حوالے کر دیا ۔ مصائب اور تکالیف برداشت کرنا تو ایک مسلمان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہوتی ، دکھ اس بات کا ہوتا ہے جب اپنے بھی بیگانے بن جائیں ،جب دشمن تو ہوں ، دوست کوئی نہ ہو ، جب بے بسی تو ہو ، مگر کوئی آس بننے والا نہ ہو ۔ جب اپنے گھر کے رکھوالے ہی اغیار کے نمائندے بن جائیں تو ارمان بکھر جایا کرتے ، امیدیں دم توڑ دیا کرتی ہیں ، سپنوں کے آبگینے کر چیاں بن کر اپنے ہی دل میں پیو ست ہو جایا کرتی ہیں ۔ یہی وہ کیفیت ہوتی ہے ، جب چیخنا چاہیں تو آواز ساتھ چھوڑ دیتی ہے ، رونا چاہیں تو آنسو خشک ہو جاتے ہیں ، بھا گنا چاہیں تو قدم زمین میں پیوست ہو جاتے ہیں ۔ جب انسان ان تما م کیفیات سے گزر کر ٹوٹ بکھرتا ہے تو وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی زندہ لاش بن جاتا ہے ۔
قرآن کی یہ مظلوم حافظہ اور ذہین ترین سائنسدان ڈاکٹر عافیہ کے دل سے اٹھنے والی بے بس چیخیں یقیناًآج عرش کو ہلا رہی ہونگی ۔ مگر نجانے مسلمانوں کوکیا ہو گیا ہے ۔ آج چشم فلک حیران ہے کہ ایک انوکھی مظلوم مشق ستم بنائی جارہی ہے ۔ جس کی چیخیں سننے والا شاید کوئی بھی نہیں ہے ۔ شاید اس کا تعلق کسی قوم سے نہیں تھا ۔ شاید اس کا تعلق کسی امت سے نہیں تھا ۔ 
کیا اس کے ہم وطن اور ہم مذہب انسانوں کے سینے میں اب دل کی جگہ پتھروں نے لے لی ہے ؟کیا ان لو گوں کے ضمیران کو نہیں جھنجوڑتے ؟ ایسے بے شمار سوالات انسانی غیرت کو جھنجوڑ رہے ہیں ۔
اس موقع پر ہم انسانی حقوق کی ان تنظیموں سے بھی سوال کرتے ہیں حقوق انسانی اور حقوق نسواں کے تحفظ کی قسمیں کھاتی پھرتی ہیں کیا ان کی نظر اس مجبور و مقہور خاتون پر نہیں پڑتی ، جس کا جسم آج چھلنی چھلنی ہے ۔ جو چلنے پھرنے سے قاصر ہے ۔ انصاف کے دعویدار وہ لو گ کہاں ہیں جودوسروں کے خون کے عوض انصاف بانٹتے پھرتے ہیں کیا ان کو ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کی کوئی فکر نہیں ؟
اس مو قع پر ان مذہبی رہنماؤں کو بھی پکارنا چاہوں گا ، جو خود کو اسلامی عقائد اور فقہ کا محافظ تصور کرتے ہیں ۔ اور رسول خدا3 کی غلا می میں جاں سے گزر جانے کا دعویٰ رکھتے ہیں ۔ کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی مظلوم بہن کوغیروں کے شکنجے میں تڑ پتا چھوڑ کر بھی عبادت کرنے میں لطف آتا ہے ؟ کیا تمہارے ذکر کی پکاریں مظلوم عافیہ کی چیخوں پہ بھی بھاری ہیں ؟ کیا تمہارے تسبیح کے گرتے دانے ، ڈاکٹر عافیہ کے بدن سے ٹپکتے لہو کے قطروں پہ بھی بھاری ہیں ؟
کیا قالینوں پہ ادا ہونے والے آپ کے سجدے ، کفار کے طمانچے کھا کر ڈاکٹر عافیہ کو لگنے والی چو ٹوں پہ بھی بھاری ہیں ۔ 
کیا تمہارے فروعی اختلا فات ڈاکٹر عافیہ کے مسئلے سے زیادہ اہم ہیں۔
ہم اپنے ان حکمرانوں سے بھی پو چھتے ہیں کہ کیا ذاتی مفادات کا تحفظ ہی سیا ست کہلا تا ہے ؟ کیا ان حکمرانوں کو اس دن کا خوف نہیں کرنا چاہیے ، جب ان کو بھی قدرت تخت اقتدار سے اتار کر تحت دار پہ لے آئے کیا آپ کا یقین نہیں ہے کہ اصل پاور امریکہ نہیں مظلوم عافیہ کے طاقتور پرور دگار کے پاس ہے آئیے! اپنے سیاسی ، سماجی ، مذہبی اور اخلاقی ذمہ داریوں کی فکر کو کچھ دیر کے لیے اپنے ذہن سے نکال کر ایک طرف ہم مظلوم عافیہ صدیقی کو رکھیں اور دوسری طرف خود کو رکھیں اور سوچیں کہ کہا انسانیت اسی کردار کانام ہے ۔ کیا مسلمانی اتنی سی چیز ہی ہے کیا غیرت اسی کو کہتے ہیں کہ اپنی بہنیں اور بیٹیاں پکڑ کر چند سکوں کے عوض بیچ دی جائیں ۔کیا مظلوم عافیہ کے بارے میں میڈیاپر آنے والی خبریں ہماری غیرت کو بیدارکرنے کے لیے کافی نہیں۔
آئیے ایک مظلوم کی رہائی کے لیے اور اللہ غضب سے بچنے کے لیے ایک ایسی موثر تحریک کا آغاز کریں جو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی پر منتج ہو کیونکہ اس حالت میں ہمارے ضمیر کی یہ پکار زور پکڑ رہی ہے کہ:۔ 
ع آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے 

لہو ہمارا بھلا نہ دینا

جنت نظیر ریاست جموں و کشمیر بنیادی طور پر 7بڑے ریجنوں وادی کشمیر ، جموں ، کارگل ، لداخ ، بلتستان ، گلگت اور پونچھ اور درجنوں چھوٹے ریجنوں پر مشتمل ہے ۔ یہ ریاست 84ہزار 471مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے ۔ اس ریاست کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے ۔ ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ دس کروڑسال قبل یہ خطہ سمندر میں ڈوباہو ا تھا مگر آہستہ آہستہ خطے کی سرزمین وجود میں آئی اور اس عمل کو بھی 10کروڑ سال گزر چکے ہیں ۔ ہزاروں سالہ تاریخ کا جب مطالعہ کیا جاتا ہے تو کبھی کشمیر کی ریاست دہلی سے کابل تک اور کبھی لداخ سے سندھ کے ساحل کراچی تک پھیلی نظر آتی ہیں ۔آج کی دنیا جس ریاست کی بات کرتی ہے وہ 15اگست 1947ء میں قائم ریاست جموں و کشمیرہے اور اقوام متحدہ میں پوری ریاست متنازعہ قرار پائی ۔
15اگست 1947ء تک قائم ریاست جموں و کشمیر کا مجموعی رقبہ 84ہزار 471مربع میل جبکہ ایک اندازے کے مطابق آبادی ایک کروڑ 70لاکھ سے کچھ زائد ہے ۔ یہ ریاست دنیا کے تینوں پہاڑی سلسلوں (قراقرم، ہمالیہ ، ہندوکش )میں پھیلی ہوئی ہے ۔
اس وقت یہ ریاست 4حصوں میں تقسیم ہے ۔ جو 3ممالک پاکستان بھارت اور چین کے کنٹرول میں ہے ۔ پاکستان کے پاس 28ہزار مربع میں گلگت ، بلتستان اور ساڑھے 4ہزار مربع میل آزاد کشمیر کا علاقہ ہے ۔ گلگت ، بلتستان کی آبادی تقریباً 20لاکھ جبکہ آزاد کشمیر کی آبادی تقریباً 33لاکھ ہے ۔ 
بھارت کے زیر قبضہ علاقوں میں وادی کشمیر ، جموں اور کر گل لداخ وغیرہ شامل ہیں جنکی مجموعی آبادی تقریبا ایک کروڑ 15ہزار ہے ۔ چین کے پاس 10ہزار مربع میل اقصائے چن کا علاقہ ہے جو 10ہزار مربع میل کے علاقے تک پھیلا ہوا ہے ۔ چین کے اس علاقے میں کوئی آبادی نہیں ہے ۔ یہ علاقہ چین کے مسلم اکثریتی صوبہ سینگ کیانگ کا حصہ ہے ۔ چین نے کچھ علاقہ 1963ء کی جنگ میں بھارت سے چھینا جبکہ 1900مربع میل علاقہ پاکستان سے 16مارچ 1963ء میں پاک چین معاہدے کے تحت عارضی طورپر حاصل کیا ہے ۔ اہل کشمیر کی مظلومیت کی طویل شب تار کاآغاز 16مارچ 1946ء میں ہوا ۔ جب معاہدہ امرتسر طے پایا اس معاہدے کے مطابق گلا ب سنگھ نے انگریز سے 75لاکھ نانک شاہی میں جموں و کشمیر اور ہزارہ کا علاقہ خرید کر غلام بنایا ، جبکہ گلگت بلتستان ، کارگل اور لداخ ریجنز کے علاقوں پر قبضہ کر کے ایک مضبوط اور مستحکم ریاست قائم کی ۔ کشمیر کی مزاحمتی جدو جہد کا مطالعہ کیا جائے تو ڈوگرہ حکمرانوں کے دور میں 1924ء تک سیاسی خاموشی نظر آتی ہے ۔یہ خاموشی 1924ئمیں اس وقت ٹوٹی جب سری نگر میں کام کرنے والے ریشم کے کارخانوں کے مزدوروں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی اور پوری ریاست نے ان کی آواز کے ساتھ آواز ملائی ۔ 
1931ء میں تحریک مالیہ عدم ادائیگی کا آغاز کیا گیا ۔ اس کے علاوہ 1946ء میں شیخ عبداللہ کی کشمیر چھوڑدو تحریک اور دیگر تحریکوں نے کشمیر کے مسلمانوں کو ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد کرنے پر تیار کیا ۔ 24اکتوبر 1947ء کو موجودہ آزاد کشمیر میں آزاد حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ حکومت کے قیام کے ساتھ ہی مجاہدین نے سری نگر کی طرف رخ کیا ۔ سری نگر تک کے علاقے پر قبضہ کیا اور مہاراجہ کشمیر دارلحکومت سے بھاگ کر جموں چلے گئے ۔ اِس وقت بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370کے تحت کشمیر کوخصوصی حیثیت دی ہوئی ہے جبکہ پاکستان نے آزاد کشمیر میں 1947ء میں ہی آزاد ریاست قائم کر دی ۔ 1947ء سے 1966ء تک کشمیر یوں نے سیاسی میدان میں آزادی کی جنگ لڑی مگر اس میں کوئی کامیابی نہ ہوئی ۔ 1966ء میں عسکری جدوجہد کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں یکم جنوری 1989ء سے 31 جنوری 2011ء تک 93ہزار 549افراد شہید ہوئے ۔ جن میں 6ہزار 982افراد کو حراست میں شہید کیا گیا ۔ ایک لاکھ 18ہزار 989افراد گرفتار ہوئے ۔ ایک لاکھ 5ہزار901مکانات اور عمارتیں تباہ ہوئیں ۔ 22ہزار 749خواتین بیوہ ہوئیں ۔ ایک لاکھ 7ہزار 400بچے یتیم ہوئے یہ توصرف وہ اعداد و شمار ہیں جو رکارڈ میں ہیں جبکہ کہا جاتا ہے کہ 20سے 30فی صد ایسے واقعات کا اندارج ہی نہیں ہو پاتا ۔
27اکتوبر 1947ء سے 31دسمبر1998تک بھارتی جارحیت کے نتیجے میں تقریبا 50ہزار سے زائد بے گناہ افراد خون کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں ۔ 
غیور مسلمانان کشمیر کی اس جدو جہد کی تائید کرنے اور ان کی حمایت میں پہلی مرتبہ 1990ء میں سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی اپیل پر یوم یکجہتی کشمیر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ۔
اب تک ہر سال تسلسل کے ساتھ یہ دن منا یا جاتا ہے اور کشمیر کے مجاہدین اور شہداء کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ۔ آج 2012ء میں 5فروری کی تاریخ ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ناصرف ہم کشمیریوں کی اخلاقی حمایت کا اعلان کریں بلکہ اپنی پالیسیوں کا بھی جائزہ لیں اور اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کہیں ہم کشمیری مجاہدین کے خون سے غداری کے مرتکب تو نہیں ہو رہے کہیں امن کی خواہش کے نام پر ہماری دینی اور قومی غیرت کا جنازہ تو نہیں نکالا جارہا ہے ۔ 
لاکھوں کشمیریوں کے مجرم ، ظالم ، قاتل ، سفاک اور قابض ملک تجارت کیلئے موسٹ فیورٹ کنٹری کا درجہ دینا ہمارے قومی وقار اور دینی غیرت کے خلاف تو نہیں ۔ کہیں کشمیری مجاہدین کی مدد سے ہاتھ کھینچ لینا بے وفائی تو نہیں ۔ ہندو بنیے کی تہذیب و تمدن کو پاکستانی تہذیب و تمدن جیسا قرار دینا دوقومی نظریے کے قتل کے مترادف تو نہیں ۔ اگر ہم اصلاح احوال کے ارادے سے اپنے گریبان میں جھانکیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ ہم اپنے شہداء کے خون سے وفا نہیں کر پا رہے ۔ اللہ رب العزت نے ہمیں کس قدر خوبصورت جنت ارضی کا مالک بنایا ہے ۔ مگر ہم کس قدر کمزور ہیں کہ اپنی اس خوبصورت دنیاوی جنت کو ٹکڑے ٹکڑے کروا بیٹھے ہیں ۔ جس طرح ابتداء میں ذکر کیا گیا ہے کہ خطہ کشمیر جو مسلم اکثریتی خطہ ہے ، مختلف حصوں میں بٹ چکا ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ درمیان میں ہی معلق ہے ۔ یہ سب کچھ بھی برداشت کیا جاسکتا ہے مگر یہ تلخی برداشت کے قابل نہیں ہے کہ بے شمار مجاہدین اپنے خون کے عطیے پیش کر چکے ہیں اور آج بھی سراپا سوال ہیں کہ :۔
اور کتنوں کا لہو چاہیے تجھے اے ارض وطن 
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا 
دوسری طرف ہماری سیاسی قیادت اپنے معمولی مفادات کی حرص میں کھو کر اس خونی جدو جہد پر پانی بہانا چاہتی ہے۔کبھی تجارت اور کبھی امن کی خواہش کے نام پران شہداء کے خون سے مذاق کر رہی ہے،جنہوں نے اپنی آنکھوں میں آزادی کا سپنا تو سجایامگر اس خواب کی تعبیرکی حسرت ہی لے کر اس دارِفانی سے کوچ کر گئے۔اگر یہ شہداء بارگاہِ خدا وندی میں سر خرو ہو چکے ہیں قرآن کے مطابق وہ زندہ ہیں بلکہ امر ہو چکے ہیں مگر ہمارے کاندھوں پر وہ خون کا ایسا قرض چھوڑ گئے ہیں جس کو چکانے کا صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم جدو جہد آزادی کشمیر میں اہل کشمیرکی مکمل حمایت کریں اور اہل کشمیر کی محبت کو ماند نہ پڑنے دیں ورنہ نہ ہمیں تاریخ معاف کرے گی اور نہ ہی ہماری آنے والی نسلیں ہماری اس کوتاہی کا نظر انداز کر پائیں گی۔
آئیے ! آج 5فروری کو ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے حوصلے بڑھائیں شہدا ء کو خراج تحسین پیش کریں اور احتساب بھی کریں کیونکہ آج یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر ان بے شمار بے گناہ شہداء کا خون پکار پکار کر ہر غیرت مند پاکستانی کو جھنجوڑ رہا ہے ۔
شہید تم سے یہ کہہ رہے ہیں ، لہو ہمارا بھلا نہ دینا 
قسم ہے تم کو اے سرفروشو لہو ہمارا بھلا نہ دینا 
ہے دین کا دشمن وہ عزتوں کا لٹیرا دشمن 
لہو میں بھیگے دریدہ آنچل ، قسم ہے تم کو بھلا نہ دینا 
وہ اجڑا گلشن ویران گلستان وہ جلتے باغ اور اداس کلیاں 
ہماری ماؤں کے بہتے آنسو ، قسم ہے تم کو بھلا نہ دینا 
جنہوں نے گلشن کے پھول مسلے ، حسین چمن کی کلیاں ہیں روندیں 
وہ ہاتھ پاؤں ہی کاٹ ڈالوں ، یہ فرض اپنا بھلا نہ دینا 
وضو ہم اپنے لہو سے کر کے خدا کے ہاں سُر خرو ہیں ٹھہرے 
ہم عہد اپنا نباہ چلے ہیں ، تم عہد اپنا بھلا نہ دینا 

سال نو کی کرنو تم کو گلے سے اب جو لگا لیا ہے

ماہ دسمبرایک سال کی تکمیل کا پیغام ہے اسی ماہ پرانا سال نئے سال کی ساعتوں کو خوش آمدید کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے الوادع ہو جاتا ہے۔وقت کی رفتار ایک بارپھر خواہشات جذبات ، سپنوں ارمانوں،آرزؤں کو مات دے کر بہت آگے نکل جاتا ہے۔بے شمار سپنوں کے آبگینے ٹوٹ بکھرتے ہیں بے شمار جذبات کی کرچیاں بکھر جاتی ہیں۔جو آئندہ طویل عرصے تک دل میں چبھن کا باعث بنتی ہیں۔شاید یہی جذباتی پن شعراء کو بے تاب کرتا ہے اور وہ طویل طویل نظمیں اسی ماہ دسمبرکے نام کر دیتے ہیں،کوئی اپنی افسردگیوں اور دکھوں کا الزام دسمبر کے سر یوں تھونپتا ہے:۔
دسمبر آج بھی اپنے ا ثاثے ساتھ لایا ہے
وہی تیور وہی افسردگی اور سرد سا لہجہ
بعض واوقات تو لفظوں کا کھیل کھیلنے والے یہ دیوانے کھلاڑی اپنی جھونپڑی کی ویرانی کا سبب بھی اس سر د مزاج مہینے کو ہی قرار دیتے ہیں:۔
بہت محسوس ہوتی ہیں مجھے شامیں دسمبر کی
مجھے زندان لگتا ہے انہی شاموں میں گھر اپنا
دسمبر سے یہ شکر رنجیاں لفظی شکوے شکایتیں اپنی جگہ تا ہم یہ حقیقت بھی چھپائے نہیں چھپتی کہ افسردہ،نرم اور دکھی لوگوں کودسمبر کی گہری سرد تاریک اور طویل راتوں سے خاص نسبت ہے۔مایوس اور ٹوٹے دلوں کو ان گہری راتوں میں دنیاکے منافقانہ اورشاطرانہ رونقوں سے چھٹکاراملتا ہے۔مناظر قدرت سے قُرب نصیب ہوتا ہے خاموشی اور تنہائی کی صحبت نصیب ہوتی ہے۔اپنے آپ سے دل کی بات کہہ ڈالنے کا موقع میسر آ جاتا ہے کسی الزام کے خوف سے بے نیاز ہو کراپنا حالِ دل چھیڑنے کا وقت مل جاتا ہے۔ملائیت کے فتوؤں سے بے خوف ہو کرقدرت کی جھولی میں سر رکھ کر،اشک ریز ہو کرشکوے شکایتیں کرنے کا بھی لطف حاصل ہو جاتا ہے انہی راتوں میں کبھی کبھار خود پہ دیوانگی طاری کر کے لمبی لمبی راہوں پہ بے نشان منزل کا راہی بننے کا شوق انگڑائی لینے لگتا ہے اور کبھی کبھاران راتوں کا حال یوں بھی ہوتا ہے کہ:۔
یادوں کی شال اوڑھ کر آوارہ گردیاں
کاٹی ہیں ہم نے یوں بھی دسمبر کی سردیاں
تا ہم جب یہ افسردہ ،تنہا،مجبورآوارہ گرد دنیا کی بے ثباتی اور گزرتے دسمبر کی رفتار کا ادراک کر لیتے ہیں اور یہ یقین ہو جاتا ہے کہ یہ سکوت اور یہ لمحات عارضی ہیں تو دل میں نئی فکر انگڑائی لیتی ہے کہ:۔
یہ سب رستے کے ساتھی ہیں ،انہیں آخر بچھڑنا ہے
چلو اب گھر چلیں محسن ،بہت آوارگی کرلی
دسمبر کے اواخر میں یہی بچھڑے ہوئے اہل دل ان سرد رُتوں اورگہری راتوں کے مہاراجہ دسمبر کا دامن چشم تصور میں پکڑ لیتے ہیں اور لجاہت سے التجا کناں ہوتے ہیں کہ:۔
’’دسمبر ‘‘ٹھہر جاؤ نا!
ابھی لمحے نہیں بکھرے
ابھی موسم نہیں بچھڑے
میرے کمرے کی ٹھنڈک میں
ابھی کچھ دھوپ باقی ہے
مگر گزرتے لمحے کب کسی کی سنتے ہیں اور پھر وہی ہوتا ہے جس کا ڈر دل کو کھائے مار رہا ہو تا ہے اوردسمبر کے پُر لطف لمحات جذبات کو قدموں تلے روندتے ہوئے بیت جاتے ہیں اور دسمبر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچھڑ جاتا ہے۔جب دسمبر اپنی اداس رُتیں سمیٹتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ جاتا ہے تو سال نو طلوع ہوتا ہے۔گویا سردی،غموں،دکھوں اور اداسیوں کے طعنے سہنے کے بعدبالآخریہ مہینہ اپنے خون کا ایسا چراغ جلا کر الوادع ہوتا ہے جس کی پہلی کرن ہی لاتعدادتمناؤں،خواہشوں اور آرزؤں کے اَن کھلے غُنچوں کو تازگی عطا کر کے انسانی قلب کو خوبصورت آرزؤں کا گلزار بنا دیتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہوخواہش کرنے پہ کون سا پابندی ہے کچھ اچھا سوچ لینے پہ کون سا کوئی گرفت ہے۔
آج 2012عیسوی کے آغازپہ ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم خواہش اور امید اپنے دل ودماغ میں سجا کر رکھیں کہ یہ سال ہماری مصیبتوں کے خاتمے کا سال ہو گا۔یہ سال عالمِ اسلام کی سر بلندی اور کفر کے زوال کا سال ہو گا۔بحیثیت پاکستانی ہمیں یہ امید بھی ہے کہ اس سال پاکستان کو سیاسی استحکام حاصل ہو گا۔اس سال اس پاک سر زمین پہ کوئی سیلاب اور کوئی زلزلہ نہیں آئے گا۔اس سال کوئی ڈرون پاک سرحدوں کی حرمت پامال نہیں کرے گااب کی بار کوئی حکومت امریکہ سمیت کسی استعماری قوت کے سامنے نہیں جھکے گی ۔
ہمیں اس نئے سال کے آغازپر یہ امید باندھنے کا حق بھی حاصل ہے کہ امریکہ کو تجارتی فوائد پہنچانے کیلئے بھارت جیسے سفاک اور قاتل ملک کو’’موسٹ فیورٹ کنٹری‘‘قرار دینے کا فیصلہ بھی واپس لیناہو گا۔اور کشمیری مجاہدین کی اخلاقی،مالی اور عسکری امداد میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ہم یہ بھی امید لگانا چاہتے ہیں کہ اس سال قدرتی گیس ،بجلی اور پٹرول جیسے قدرتی وسائل کے بحران اور لوڈ شیڈنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔مہنگائی اور بے روز گاری میں کمی آئے گی ہم ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے اور اس نظام کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔
سیاسی اُفق پہ بدلتے حالات کا جب جائزہ لیں تو یہ خواہش انگڑائی لیتی ہے کہ مصر،تیونس،لیبیا سمیت دنیابھر کے اسلام پسندانقلابیوں کوان کے جمہوری حق کے مطابق اسلامی حکومت اور اسلامی نظام کاتحفہ بھی اس نئے سال میں ہی مل جائے۔ہم تو یہ خواہش بھی کرتے ہیں کہ مظلوم مقبوضہ فلسطین کوآزادی حاصل ہو جائے۔کاش اس نئے سال میں طلوع ہونے والی سورج کی کرنوں میں ایسی تاثیر ہوتی کہ یہ کرنیں ہر مظلوم کو ظلم سے ،غریب کو غربت سے،مجبور کو جبر سے،غلام کو غلامی سے،گنہگار کوگناہوں سے،کافر کو کفر سے،منافق کو منافقت سے پاک کر دیتیں۔
مذکورہ بالایا ان سے ملتی جلتی خواہشیں ہم ہر نئے سال اپنے دل ودماغ میں بساتے ہیں اور ان کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں مگر یہ آرزوئیں کبھی تکمیل کو نہیں پہنچتیں۔چونکہ خواہش کرنے پر کوئی پابندی نہیں اس لئے کسی کو بھی اس طرح کی خواہش سے روکا نہیں جا سکتاتا ہم ایک گزارش ضرور کی جاسکتی ہے کہ اگر ہم ان خواہشوں کی تکمیل کے بھی خواہاں ہیں تو پھر ہمیں اپنے فکر و عمل اور کردار میں تبدیلی لانا ہو گی۔دنیا میں مثبت انقلاب لانے کی تحریک کا آغازہمیں اپنے اندر تبدیلی لا کر کرنا ہو گا۔اگر ہم دنیا کے ظالم اور جابر نظاموں کے خلاف بغاوت کرنے کا سوچتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے سینے میں موجودمسلط فرعون کا تختہ الٹنا ہو گااور وقت ضائع کئے بغیردنیا کی استعماری قوتوں کے خلاف بھی میدان عمل میں اترنا پڑے گا۔سالِ گزشتہ کی تلخیوں کواپنی ناکامی یا کمزوری پر محمول کئے بغیران سے سبق سیکھنا ہوگااور اپنے لئے راہِ عمل کا تعین کرنا پڑے گا۔گزرتے ہوئے ماہ و سال کا یہ سلسلہ انسانی جذبات،خیالات اور افکارپر بہر حال اثر اندازہوتا ہے اور اسی اثر کو قبول کرتے ہوئے کی گئی اپنی شاعری میں سے ایک مختصر حصہ قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں:۔
ماہِ دسمبرکی بچھڑی یادو ذہن سے نکل بھی جاؤ نا
گہری شب میں جگاکے مجھ کو یوں نہ اب ستاؤ نا
مجھے تسلی دینے والی زبان کے پیارے پیارے لفظو
ذہن سے کیوں نکل گئے ہو آؤ اب یاد آؤ نا
سال نو کی کرنو تم کو گلے سے اب جو لگا لیا ہے
میری امیدوں کا کوئی غنچہ تم آکے کھلاؤ نا