اس بلاگ میں سے تلاش کریں

Friday, November 16, 2012

آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو

اجتماعی طور پر پاکستان کی حیثیت ہمارے لیے ایسی ہے جیسا کہ ایک گھر کی اہمیت ایک فردِ خانہ کیلئے ہوتی ہے ۔ اگرچہ استعماری قوتیں کچھ سیکولر ، کچھ نام نہاد مذہب پسند اور بعض نا دیدہ ہاتھوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان اور پاکستانیوں کی اس فطری نسبت کو کمزور کرنے کے درپے ہیں ۔ تاہم اس بات سے انکار نہیں کہ پاکستان کی بقاء خطہ برصغیر میں اسلام کے جداگانہ تشخص کیلئے ضروری ہے اور مسلمانوں کی فلاح بھی اسی بات میں ہے کہ پاکستان قائم رہے اور مسلمان اس پاک دیس کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظ رہیں ۔
پاکستان کے خلاف ہمہ پہلو اور بھیانک سازش تیار کی جاچکی ہے اور اس پر عمل بھی کیا جارہا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ سیکولر و مذہبی قوتوں کو الگ الگ نعرے دیئے گئے اور اُن کو معاشرے میں سرایت کرنے کا موقع دیا جارہا ہے ۔ پاکستان کے سخت گیر اور غیر متعصب فکر کے حامل مسلمانوں کو اپنے اس گھر سے فطری محبت کرنے کے جرم میں عصبیت کا طعنہ دیا جاتا ہے ۔ پاکستان کے خلاف جذبات کو ابھار کر آئین شکنی کا درس دیا جاتا ہے ۔ تاکہ اہل پاکستان کے درمیان بے چینی اور اور ملک سے نفرت کے نہ صرف جذبات پیدا کئے جائیں بلکہ ملک کے خلاف انہی مسلمانوں کو عملی جدوجہد کیلئے تیار بھی کیا جائے ۔
کچھ مسلمان ایسے بھی ہیں جنکو ملائیت نے پہلے ہی تعصب اور فرقہ واریت کے مہلک پنجوں میں جکڑ رکھا ہے ۔ا ن سب مسلمانوں کو بھی جمع کیا جا رہا ہے ۔ ہم اپنے سیاسی افق پر دیکھ رہے ہیں کہ دو مختلف المسلک گروپوں کو بہت تیزی سے مضبوط کیا جارہا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ان دونوں گروپوں کو منظم کر کے آپس میں لڑا دیا جائے گا اس تصادم میں مذہبی قوتیں بدنام ہو کر کمزور ہو جائیں گی ۔ یوں سیکولر پاورز کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل جائے گا ۔ اور ہم واضح دیکھ رہے ہیں کہ سیکولر پاورز پہلے ہی علاقائیت ، صوبائیت ، لسانیت اور ثقافت کے نام پر پاکستان کی فیڈریشن سے الگ ہونے کا منحوس نعرہ لگا رہی ہیں یوں غیر متعصب مذہبی ، فرقہ پرست مذہبی اور سیکولر قوتیں اور ان کے نظریات سے منسلک عام مسلمان جب پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑنے کی بجائے اپنے فرقے ، اپنے نظرے یا اپنے علاقے اور زبان کی بقاء کی جدوجہد شروع کردیں گے پھر ایسی خاموش اکثریت پاکستان کی بقاء کی ضامن بن جائے گی جس کو کھوکھلے نعرے لگانا یا دیگر غداروں کی طرح منافقت کرنا تو نہیں آتا مگر یہ اکثریت غیرت کے جذبے سے ضرور سر شار ہے اور اپنے گھر کی حفاظت کرنا خوب جانتی ہے ۔ 
اب ان محب پاکستان مسلمانوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ بھی شاید کیا جا چکا ہے اور ان کے دلوں سے جذبہ حب الوطنی کو سرد کرنے کی سازش ہو رہی ہے ۔ اس سازش کے تحت عام پاکستانیوں کو تمام سہولیات سے محروم رکھ کر کمر توڑ مہنگائی کی چکی میں پیسا جارہا ہے ۔ ہو سکتا ہے یہ سخت کو ش قوم خطے میں اسلام کی بقاء کے لیے یہ دکھ جھیلتے رہنے کو تیار ہو جاتی اس لیے ایک اور بھیانک سازش تیار کر لی گئی اور یہ سازش ہے عدم تحفظ پیدا کرنے کی سازش ۔
اس سازش کے تحت اپنے ہی ہم وطنو ں کے خلاف اپنی افواج کو لڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ اغیار کے ہاتھوں ڈرون حملے کروا کر گھروں کے اندر موت کا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ اور محض شک کی بنیا د پر اپنے ہی وطن میں اپنے ہی لو گوں کو نادیدہ ہاتھوں کے زور پر اغواء کیا جارہا ہے ۔ انہی اغواء شدگان کے لواحقین آجکل اسلام آباد میں ڈیرے لگائے بیٹھے ہیں ۔ احتجاجی کیمپ لگا ہوا ہے ۔ مردہ ضمیر حکمران اور سیاستدان آتے ہیں ، مظلوموں کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔ ہم یہ اخبارات ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کی خبریں سنتے ہیں اور اپنے کاروبارِ حیات میں لگ جاتے ہیں ۔ 
یہ معاملہ سنگین اس لیے محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس عظیم سازش کی حقیقت اور مضمرات سے بھی لاعلم ہیں اور اس کے ایک ایک لمحے کے دکھ سے بھی لاتعلق ہیں اور ان مجبور اور بے بس مسلمانوں پہ قیامت بن کر گزر رہا ہے موت تو برحق ہے ۔ موت آتی ہے صدمہ پہنچاتی ہے اور وقت اس صدمے سے لگے زخم پر مرحم رکھ دیتا ہے لیکن نجانے یہ دکھ کیسا ہو گا جب ایک ماں بیک وقت اپنے بیٹے کی جدائی کا دکھ بھی برداشت کرتی ہے ۔ بیٹے کی سلامتی کی فکر بھی دامن نہیں چھوڑتی اور انتظار کی گھڑیاں بھی قیامت ڈھاتی ہیں ۔ جب ان ظالم حکمرانوں کی منافقت سے بھر پور تسلیاں اس ماں کی امیدوں کو شباب بخشتی ہیں اور پھر اچانک یہ آس کی کرنیں ، یاس کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں ڈھل جاتی ہیں تو نجانے یہ مظلوم مائیں اس کرب سے کیسے گزرتی ہونگی ۔ 
ہم اندازہ نہیں کر سکتے کہ ان اغواء شدگان کی بہنیں اپنے بھائیوں کے لیے کیسے کیسے سپنے دیکھتی ہونگی ۔ مگر آنکھ کھلتے ہی یہ خوابوں کے آبگینے کرچی کرچی ہو جاتے ہونگے ۔ پتہ نہیں کیسے یہ مظلوم بدقسمت بہنیں خود کو سمجھاتی ہونگی کہ 
صبح کے اجالوں میں ڈھونڈتا ہے تعبیریں 
دل کو کون سمجھائے کہ خواب خواب ہوتے ہیں 
ان بیٹوں اور بیٹیوں کی کیا حالت ہو گی جو ایک خوبصورت خواب میں اپنے والد سے ملتے ہونگے ، اس کے دامن سے لپٹتے ہونگے اس کو مضبوطی سے پکڑتے بھی ہونگے ۔ اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں پھر ہم جدا نہ ہو جائیں ۔ مگر ان بچوں کو کیا پتہ کہ خواب خواب ہی ہوتے ہیں جب وہ بیدار ہوتے ہونگے تو ان کی کیفیت کیا ہوتی ہو گی ان مظلوم خواتین کا کرب بھلا کو ن محسوس کر سکتا ہے جن کے شوہر کھو گئے ہیں اور ان کے بچے سراپا سوال ہیں کہ!
امی جان !
ابو کہاں گئے ہیں؟ 
ابو کب لوٹ کر آئیں گے ؟
نجانے یہ مظلوم خواتین اپنے بچوں کو کیسے بہلاتی ہونگی ۔ شاید ان مظلوموں کا دکھ تو حضرت یعقوب علیہ السلام ہی محسوس کر پاتے جو پیغمبر تھے ، بڑے عزم والے تھے پھر بھی بیٹے کی جدائی میں اپنی بینائی کھو بیٹھے تھے ۔ 
میں صرف اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہوں گا کہ ان مظلوم مسلمانوں کا بھی رب ہے ۔ ان مظلوم ماؤں ، بہنوں ، بیٹوں اور بیٹیوں کے دل سے بھی کوئی آہ نکلتی ہوگی ۔ ان کی زبان سے بھی تو کسی کیلئے بدعا نکلتی ہو گی اور سوال کرتی ہو گی کہ اس طرح کے مظالم میں ملوث ظالموں اور ان مظالم پر خاموش رہنے والے بے حس سیاستدانوں کہ تمہارے سینے میں دل نہیں ہے ؟
آئیے پاکستان کے ان محبان کو اس طرح کے مظالم سے دوچار کر کے پاکستان کے خلاف کرنے کی اس سازش کو ناکام بنا ئیں اور ان مظلوموں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں جو آج بھی سراپا سوال ہیں جنہیں محب وطن پاکستانی ہونے کی سزا مل رہی ہے۔جو اپنوں کی جدائی کا درد سہتے سہتے تنگ آ گئے ہیں جو اپنے کھوئے ہوئے پیاروں کویاد کر کرکے پکار رہے ہیں۔ 
آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے لگتا ہے کہ تم ہو

No comments:

Post a Comment