اس بلاگ میں سے تلاش کریں

Friday, November 16, 2012

خرچ تدفین کا لگ جاتا ہے بیماری پر

غربت انسانیت دشمن بیماری ہے اس غربت نے ہمیشہ سے انسانی معاشرے میں اپنے پنجے گاڑھے رکھے ہیں غربت نے ازل سے طبقاتی تقسیم کو فروغ دیا پھر امیر کے ہاتھ مضبوط کیے ۔ اس کے عیبوں اور خوبیوں پر پر دہ ڈالا ۔ اس میں فرعو نیت کو اجاگر کیا یوں اس ظالم طبقے کو غربت طبقات پر حکمرانی کا اختیار سونپ دیا ۔ 
معاشرے میں طبقاتی تقسیم کے فروغ میں سرمایہ دارانہ نظام معیشت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ امیر کی امارت میں اضافہ کرکے اس کو لازوال دنیاوی بادشاہی سے نواز دیا غریب کی غربت کو بڑھایا اس کو کمزور سے کمزور ترکیا اور مجبور کر دیا کہ یہ غریب طبقہ امیر سرمایہ دار کی غلا می قبول کرلے یا موت کے منہ میں چلا جائے ۔ سرمایہ دارنہ نظام کی وجہ سے سرمایہ چندہی ہاتھوں میں جمع ہو جاتا ہے انسان کا فطری لالچ پروان چڑھتا ہے اور انسان حیوانیت کے روپ میں ڈھل کر معاشرے کے لیے گھمبیرمسئلہ بن جاتا ہے ۔ لالچ اورسرپرستی کے نشے میں دھت یہی انسان سرمایہ دار بن کر آج معاشرے پر راج کر رہا ہے ۔ جبکہ غریب آج مزدور بن کر اس ظالمانہ نظا م معیشت کی چکی میں پس رہا ہے ۔ 
پیش نظر رہنا چاہیے آج ہم جس مزدور کی مظلومیت کا تذکرہ کر رہے ہیں اس میں صرف وہ طبقہ شامل نہیں ۔ جو کڑی دھوپ میں اینٹ پتھر اور گارا اٹھا کر سرمایہ داروں کی محفو ظ اور آرام دہ پنا ہ گاہیں تیا ر کرتا ہے ۔بلکہ اس میں وہ طبقہ بھی شامل ہے جوبینک میں بیٹھ کر غیر شرعی اور سودی کاروبار کا حساب کتاب کرنے پہ مجبور ہے ۔اس میں وہ طبقہ بھی ہے جو اس معاشرے کی درس گاہوں میں جا کر سرمایہ داریت زدہ نصاب تعلیم پڑھاتا ہے ۔ حتی کہ اس میں دین کا نام لینے والا وہ مزدور بھی شامل ہے جو اسی ظالم معاشرے کے اس ظالم طبقے کی پیدائش پہ اذان ، جوانی میں نکاح اور مو ت پر نما ز جنازہ بھی ادا کرتا ہے ۔ لیکن اس کے بدلے میں یہ مزدور کیا حاصل کرتا ہے چند سکے اور 24گھنٹے کی غلا می اوربس۔
مئی کے مہینے کی ابتدا لیبر ڈے سے کرنے والے ان ظالم سرمایہ داروں کی دورنگی پہ صدا فسو س کہ اس دن تما م لیبر یو نینز کو اکٹھا کر کے نعرے تو لگوائے جاتے ہیں ۔ مگر ان پسے ہوئے طبقات کے حقوق و فرائض کا تعین نہیں کیا جاتا ۔ نہ ہی مزدور کے فرائض کی کوئی حد ہے اور نہ ہی اس کے حقو ق کا کوئی پیمانہ ایک بوڑھا اپنی پوری عمر مزدوری میں گزار دیتا ہے ۔ مگر اسے پنشن کی کوئی امید نہیں ہوتی ۔ وہ بو ڑھا اور قرب المرگ ہونے کے باوجود یہ محسو س کرتا ہے ۔ 
مجھکو تھکنے نہیں دیتا ہے ضرورت کا پہاڑ 
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے 
مگر اس معاشرے میں شاید کوئی ایسا نہیں جو اس بے زبان مجبور بوڑھے مزدور کا سہارا بنے 
محرومی کے لگے زخموں پہ مرہم رکھے ۔ بلکہ معاملہ یہ ہے کہ اس مظلوم غریب کی غربت اورمجبوری کا مذا ق اُڑا کر اس کی خامیاں گِنوا کر اسے احساس کمتری کا شکار کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس نادار کو احساس محرومی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے ۔
یہ احساس محرومی اس وقت جوان ہو جاتا ہے جب غریب امیروں کی شہ خرچیاں اور عیش و عشرت کے انداز کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ :۔ 
عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں 
لگا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں 
غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو 
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں 
دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی کا شو ر مچانے والا طبقہ اس حقیقت کو فراموش توکر دیتا ہے کہ قدرت آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ وسائل میں بھی اضافہ کر دیتی ہے درحقیقت دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ وسائل کی کمی یا آبادی میں اضافہ نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ دولت کی غیر منصفانہ اور غیر متوازن تقسیم اور گردش زر کی کمی ہے تمام سرمایہ اور دنیا کے سب وسائل چند ہاتھوں میں ہیں اور دنیا کا سرمایہ دار طبقہ ہی ان پر قابض ہے ۔ جس کی بدولت زر کی گردش رک گئی ہے اور کچھ ایسے واقعات ظہور پذیر ہور ہے ہیں کہ: ۔ 
گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب 
بیٹی کسی مزدور کی فاقوں سے مرگئی 
اگر ہم غربت کا تذکرہ ہی جارہی رکھیں تو اس مظلوم نسل کا ذکر ضرور کروں گا جو غربت کی وجہ سے اپنا اعتماد ، اپنی عزت نفس اپنی زندہ دلی کھو دیتی ہے ۔ دن بھر مجبور ہوکر مزدوری کرنے والا مزدورجب اپنی مشقت سے کہیں کم مزدوری لے کر اپنے بچوں میں لوٹتا ہے تو اس کے چہر ے پر مایوسی ،غم ، غصہ اور خشک مزاجی عیا ں ہوتی ہے اس کے رویے بھی ان معصوم بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں جنھوں نے ابھی پر وان چڑھناہے جنھوں نے مضبوط اعصاب اور خو د اعتمادی کے ساتھ اپنی دینی و ملی غیرت کی حفاظت کرنی ہے ۔
مگر یہی غربت ان کے اس اعتماد اور زندہ دلی کو نگل لیتی ہے ۔ ان کی سب سے بڑی خو شی روٹی کامل جانا ہے اور سب سے بڑی شرارت چپکے سے کسی کا کھانا چر کے کھا لینا ہے اور شاعر کی زبان سے ہم یوں کہہ سکتے ہیں :۔ 
غربت نے میرے بچوں کو تہذیب سکھا دی 
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے 
بچوں کی یہی مجبور فطرت جب معاشرے سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیتی ہے تو معاشرے میں ظلم اور بربر یت جنم لیتا ہے ۔ غریب کا بس امیر پہ تو چلتا نہیں ، چنانچہ غریب ، غریب کے ساتھ پنجہ آزما ہو جاتا ہے یوں ظالم اور مظلوم دونوں غزیت کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں کبھی کبھار تو یوں بھی ہوتا ہے کہ:۔
اک نوالے کے لئے میں نے جسے مار دیا
وہ پرندہ بھی کئی روز کا بھوکا نکلا 
اس گھٹن کے ماحول میں پل کر ایک ایسی نسل پروان چڑھتی ہے جو معاشی بحران سے محفوظ اپنے مستقبل کے لیے مخلوق پر نگاہ گاڑھ لیتی ہے ۔اپنی مجبوریاں اپنے غم اپنے ملال اور اپنی کمزوریاں دوسروں کے سامنے رکھ کر کچھ صدقات سمیٹنے کا موقع حاصل کرتی ہے اپنے اس دکھ اور ملال کے عوض چند سکے حاصل کرنا کسی صحت مند معاشرے کی دلیل نہیں یہی پالیسی معاشرے کے غریب طبقات سے لیکر ایوان اقتدار تک رائج ہے جہاں قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان آفات کے تذکرے چھیڑ چھیڑ کر اور اغیار کو اپنے زخم دکھا کر ڈالر اکٹھے کیے جاتے ہیں ایک غریب اور مزدور کی زندگی میں ایسے مواقع باربار آتے ہیں جن کو ایک شعر میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے ۔ 
مفلسی میں وہ دن بھی آئے ہیں 
ہم نے اپنا ملال بیچ دیا 
مزدور کے ساتھ غریب اور غربت کا ذکر کرنا اس لیے ضروری تھا کہ ہمارے ہاں محنت کش اور مزدوہے ہی وہ شخص جو غریب ہے اور مزدور غریب اس لیے ہے کہ وہ استحصالی نظام کے پنجوں میں جکڑا ہوا ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام معیشت نے جہاں معاشی مسائل پیدا کیے ہیں وہیں ہماری روحانی اور ذہنی افکار اور روایات کو بھی بری طر ح متاثر کیا ہے ۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں لیبر ڈے منانا اس وقت تک مفید نہیں ہو سکتا جب تک ہم اس نظام کے خلاف نبرد آزما نہیں ہوجاتے ۔ اور اسلام کے ان اُصولوں کی طرف رجوع نہیں کر لیتے جنھوں نے معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کی حفاظت کی ہے ۔ اسلام ہی وہ نظام ہے جس نے درس دیا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو ۔ مزدور پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جس کو اٹھا نے کی وہ طاقت نہیں رکھتا ۔ مزدور کو اس سے کچھ زائد بھی دے دہ جو آپ نے اس کے ساتھ طے کیا ہے ۔ ہاتھ سے کام کرنے والے محنت کش کو اللہ کا دوست ( محبوب ) ہونے کی خو شخبری بھی اسلام نے دی ہے تاکہ معاشرے میں محنت اور لیبر کو فروغ دے کر طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہو ۔ 
اگر آج ہم نے اس نظام سے پیچھا نہ چھڑا یا تو ہم تادیر غربت کی دلدل سے نکل نہیں پائیں گے ۔ ہمارا مزدور لٹتا رہے گا امیر حکومت کرتا رہے گا اور جبکہ غریب مجبور مایوس ہو کر اور غربت کواپنی قسمت سمجھ کر یہی دعائیں کرتارہے گا ۔ 
صحن غربت میں قضا دیر سے مت آیا کر 
خرچ تدفین کا لگ جاتا ہے بیماری پر 

No comments:

Post a Comment