اس بلاگ میں سے تلاش کریں

Friday, November 16, 2012

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن


ماہ ستمبر کی آمد ہماری قومی تاریخ کے ایک اہم ترین باب کی یاد تازہ کرتی ہے ۔وہ باب ہے پاک فوج کی قربانیوں کا انمٹ باب، پاکستان کے سچے جذبوں جراتوں اور غیرت ایمانی کا ترجمان باب اسی نسبت سے 6ستمبر کو یوم دفاع پاکستان کے نام سے منایا جاتاہے ،۔جو ہمیں اس عظیم معرکے کی یا ددلاتا ہے ۔جب حق و باطل باہم دست و گریباں ہوئے حق غالب آیا باطل بھاگ گیا اور خالقِ کائنات نے اہل ایمان کے جذبوں کی لاج رکھ لی۔تاریخ کے اس موڑ پر نعرہ تکبیر کام آیامسلمانان پاکستان کے دعاؤں کے لیے دراز ہاتھ رنگ لائے اور پاکستان کے مجاہد سپاہیوں کی جانبازی نے قومی غیرت کو بچا لیا اس معرکے کے پس منظر کے متعلق یہی جملہ کافی ہے کہ مسلمانان کشمیر اپنی غلامی کی زنجیریں توڑ نے کا فیصلہ کرچکی تھی ۔آزاد افواج ہندوستان کی طرف تیزی سے پیش قدمی کررہی تھیں ۔عوامی تحریک زورووں پر تھی اور بھارتی حکومت بری طرح بوکھلا چکی تھی۔ ان حالات میں بزدل بھارتی حکومت نے پاکستان پر شب خون مارنے کا خواب دیکھ لیا لیکن وہ اس خواب کے ڈراؤنی تعبیر سے لا علم تھی اس لیے اس نے پاکستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ اس طرح 6ستمبر کو علی الصبح بزدل قوم کے فوجیوں نے بغیر کسی اعلان جنگ کے پاکستان کی بین الا قوامی سرحد عبور کرلی ۔دشمن لاہور پر حملہ آور ہو چکا تھا ۔بھارت کی برّی فوج کے دو ڈویژن بھاری اسلحے کے سائے میں لاہور کی مقدس سر زمین پر اپنے ناپاک قدم رکھنا چاہتے تھے مگر انہیں کیا خبر تھی کہ اسلامیان پاکستان کی آنکھیں اپنے مادر وطن کے دفاع کے لیے ہمہ وقت بیدار رہتی ہیں۔ اس موقع پر اس وقت کے صدر پاکستان جناب جنرل ایوب خان نے کفر کو للکارا اور قوم میں جذبہ جہاد کی روح پھونکی تھی ۔ ان کے الفاظ تھے پاکستان کے 10کروڑ عوام جن کے دل کی دھڑکن میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا گونج رہی ہے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گی جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لیے خاموش نہ ہوجائیں ۔ ہندوستانی حکمران شاید ابھی نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قو م کو للکارا ہے ۔ او ر پھر ایسا ہی ہوا ، قوم جاگ اٹھی ہر بچہ، جوان دشمن کے مقابلے میں تھا ۔ ہر سپاہی سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھا ۔آج ملتِ پاکستان اپنے سر پر کفن باندھ چکی تھی ۔ آج پھر خالد ، طارق ، ایوبی اور محمد بن قاسم کی فرزند کفر کے خلاف نبرد آزماتھے ۔یوں دشمن کی پیش قدمی رُ ک گئی ۔ لاہور میں پاک فو ج کی صرف ایک کمپنی نے بھاری اسلحے سے لیس بھارتی فوج کے پورے بریگیڈکو 9گھنٹے تک روکے رکھا ۔ 
آج جذبہ ایمانی سے ٹکر ا کر ہند و بنیے کا غرور پاش پاش ہو چکا تھا ۔ پاک فوج نے نہ صرف لاہور اور قصور کے سیکٹرپر مضبوط دفاع کیا بلکہ جنگ کو دشمن کے علاقے میں دھکیل دیا ۔ لاہورکے محاذ پر شرمناک شکست دیکھ کر دشمن نے سیالکوٹ پر حملہ کر دیا تاکہ پاک فو ج کو مختلف محاذوں پر الجھا کر کمزور کیا جاسکے ۔سیالکوٹ کے محاذ پر دشمن 500ٹینکوں اور 50,000 فو ج لے کر حملہ آور ہوا تھا۔ آج ہنستی انسانی جانیں فولادی ٹینکوں کو شکست دے کر انوکھی تاریخ رقم کررہی تھیں اور بال�آخر حرارتِ ایمانی نے فولاد کو پگھلا دیا۔ سلمانکی ہیڈ ورکس کے کمانڈر نے دشمن پر ایک کاری ضرب لگانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اللہ کی نصرت کام آئی اور جب جنگ ختم ہوئی تو 40مربع میل کا رقبہ آج پاک مجاہدین کے قدموں میں تھا ۔ ان پے در پے شکستوں پر کسی نہ کسی طر ح پر دہ ڈالنے کے لیے دشمن کو کوئی راستہ چاہیے تھا ۔ چنانچہ 8ستمبر 1965کو دشمن نے جنوب میں تھر پار کر کا محاذ کھول دیا ۔ تاکہ پاکستانی فو ج کو کشمیر سے لیکر سندھ تک تقریباََ ڈیڑ ھ ہزار میل لمبی سرحد پر پھیلا کر کمزور کیا جاسکے ادھر پاک فوج نے فو ج کے شانہ بشانہ جنگ کے لیے 1000رضا کاروں کا مطالبہ کیا ۔جس کے جواب میں 50000 مادر وطن کی ناموس کی حفاظت کے لیے نکل پڑے اس سیکٹر میں بھی 1200مربع میل سے زائد علاقہ پاکستان کے کنٹرول میں آگیابر ی فوج کے ساتھ ساتھ پاک فضائیہ نے بھی عملی طور پر ثابت کیا کہ 
صحرا است کہ دریا است 
تہ بال و پر ما است 
چنانچہ چھم نامی محاذپر پہلے مقابلے میں پاک فضائیہ نے 4بھارتی طیارے مار گرائے اس حوالے سے سکوا ڈن لیڈر ایم۔ ایم ۔عالم نے ایک ہی فضائی جھڑپ میں دشمن کے پانچ ہنڑ طیارے تباہ کردیے ۔ جوکہ ایک عالمی ریکارڈ تھا ۔ جنگ کے 17دنوں میں انہوں نے دشمن کے 9طیارے مارگرائے ۔ مجموعی طور پر 35بھارتی طیارے فضاؤں میں اور 43طیارے زمین پر تباہ کردیے گئے ۔ جبکہ 32طیارے طیارہ شکن توپوں کی نذر ہوگئے ۔ یوں 110بھارتی طیارے تباہ ہوئے پاکستانی بحریہ نے بھی دفاع وطن میں اپنا لوہا منوایا ۔ آج سمندروں کی لہریں پاک مجاہدین کے سامنے سمٹ گئیں ۔7ستمبر کی شام کراچی سے پونے دو سو میل دور دشمن کے ساحلی علاقوں کی طرف سفرشروع کیا 100سے زائد توپوں نے نصف شب کو ہندوستانی بحری اڈے پر حملہ کرکے 12گھنٹے کے اند ر اندر اسے تباہ کر دیا۔ جبکہ بمبئی کے ہندوستانی بحریہ کے ہیڈ کوارٹرکو بمبئی کے مقام پر ایک آبدوز نے محاصرے میں لیے رکھا ۔ یوں تینوں محاذوں پر 17روزہ جنگ پاکستان جیت گیا۔ آج یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ 
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیر ی نصرت کو 
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اوریہ حقیقت بھی واضح ہوگئی پاکستان کی حفاظت دراصل اسلام کی حفاظت ہے لشکر پاکستان حقیقت میں لشکر اسلام ہے ۔
آج 6ستمبر 2011کو بھی اپنی اس عظیم تاریخ کو یاد کرکے زندہ رہنے کا حوصلہ محسوس کرتے ہیں اور دل گواہی دیتا ہے کہ اگر آ ج بھی اس پیارے دیس پر کسی دشمن نے ہاتھ اٹھایا ۔ تو وہ ہاتھ سلامت نہیں رہے گا ۔ تاہم ایک بات کی طر ف میں اشارہ ضرور کروں گا 6ستمبر 1965اور 6ستمبر 2011میں فرق یہ ہے اس وقت تینوں افواج کے پیچھے ایک چوتھی قوت بھی تھی جو جراتوں کا پہاڑ تھی۔ قومی غیرت کا پیکر تھی۔ وہ قوت عوام کی تھی ۔جو پاک فوج کے سر پر ایک سایہ تھی آ ج وہ سایہ اٹھتا چلا جارہا ہے۔ آج اگر ہم 17روزہ گھمسان کی لڑائی تو نہیں لڑ رہے مگر یہ جان لینا چاہیے نظریاتی جنگ آج بھی جاری ہے ۔دشمن اپنے ایجنٹوں کے ہاتھوں عوام میں گھس کر لوگوں کو پاکستان سے مایوس اور بددل کررہا ہے ۔ہم محسو س کریں یا نہ کریں یہ حقیقیت مسلم ہے کہ کفا ر کے یہ ایجنٹ مذہبی لبادے میں بھی کام کرہے ہیں سیکولر رنگ میں بھی مصروف عمل ہیں کبھی اسلام کے خلافن نعرہ لگا کر غداری کے جذبات پیدا کیے جاتے ہیں تو کبھی اسلام او ر پاکستان کو متضاد قوتیں ثابت کرکے غدار پیدا کیے جاتے ہیں ۔ مگر یا د رہے کہ نااہل حکمران یا غلط قانون بن جانے سے ریاست شجر ممنوعہ نہیں بن جاتی سڑکیں ٹوٹنے ، لوڈشیڈنگ کی زیادتی اور مہنگائی کے سیلاب کے ریلے میں محبت کے جذبات بہ نہیں جا یا کرتے ہم کل بھی پاکستانی تھے ۔ آج بھی پاکستانی ہیں ۔ اور ہمیشہ پاکستانی رہیں گے سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت کی آرزو بھی کریں گے ۔کیونکہ پاکستان کی حفاظت اسلام کی حفاظت ہے ۔ اسلام کے راہ میں شہادت زندگی ہی زندگی ہے اور اقبال کے بقول 
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن 
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

No comments:

Post a Comment