اس بلاگ میں سے تلاش کریں

Friday, November 16, 2012

آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے

غیرت ایک فطری نعمت ہے ۔ قوموں کی زندگی میں حمیت اور غیرت روح کی حیثیت رکھتی ہے ۔ میر ے خیال میں قومی حمیت کے بغیر اقوام اقوام نہیں رہتیں بلکہ ایک ہجوم بن جاتی ہیں۔ ایک ایسا ہجوم جسے امریکہ جیسا بھیڑیا کبھی بھی آکر چیر پھاڑ ڈالے ۔
ماں ، بہن ، بیٹی وہ حساس ترین رشتے ہوتے ہیں جہاں پر آکر غیرت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنا شروع کر دیتا ہے ۔ اچھا خاصا باہوش انسان اس فطری غیرت کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے اور اپنی اس غیر ت کا مظاہرہ کرنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کر سکتا ۔ 
شاید یہی انسانی اور ایمانی غیرت تھی جو جواں سال مسلم سپہ سالا رجناب محمد بن قاسم کو عرب سے عجم تک ہزاروں سپاہ کے ہمراہ کھینچ لائی تھی ۔ کتنی طاقتور تھی اس وقت کی مظلو م ناہید ۔ جس کو ہند و راجہ داہر نے قیدی بنانے کی کو شش کی اور خو د ہی نیست و نابو د ہو گیا ۔کتنی خو ش قسمت تھی مظلوم ناہید جس نے محمد بن قاسمؒ جیسے مسلمانوں کے دور میں آنکھ کھولی تھی ۔
ذرہ سوچیے جب رکاوٹوں ، مسائل اور مشکلات کو اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے ،اسلام کا جری مجاہد محمد بن قاسمؒ دیبل(کراچی) تک آ پہنچا تھا اور مسلمانوں کا عظیم الشان لشکر اس کے ہمراہ اپنی بہن کی ردا کا محافظ بن کر ہندو بنئے پر ٹو ٹ پڑا تھا ، مظلوم ناہید خو د کو کتنا طاقتور تصور کررہی ہو گی ۔ اسلام کا جھنڈا کیسے سر بلند ہو کر لہرایا ہو گا۔ 
یہی غیرت کا عظیم الشان منظر تھا ، جو مسلمانوں کے عروج کا اصل سبب تھا ۔ ماضی کے اس روشن و تاباں باب کی مختصر سی جھلک دیکھنے کے بعد آئیے حال کے اس تاریک دور کا ذکر بھی کریں جو ہر صاحب داستان ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔ اہل اسلام کے پاکیزہ خون کی ندیاں ہیں ۔ جو سمندرکا روپ دھارنے کو ہیں ۔ اسلحے کی بارش ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی اسی طو فان ظلم و ستم میں ناہید کی داستان دہرائی جارہی ہے ۔ مگر اب کی بار یہ داستان نہایت ہی بھیانک شکل میں ہمارے سامنے ہے ۔ مظلومیت کی داستان اہل اسلام کی اس مظلوم بیٹی کی ہے ۔ جس نے 2مارچ 1972کو کراچی میں جنم لیا ۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا کا سفر کیا ۔10سال تک اسی ملک میں مقیم رہیں ۔2002میں Ph.Dکی سند اور بے شمار اعزازات لے کر واپس پاکستان آگئیں کچھ عر صے بعد نو کری کی تلا ش میں دوبارہ امریکہ کا دورہ کیا ور 2003میں وطن واپس لو ٹ آئیں ۔ یہ وہی بد قسمت مسلمان اور پاکستانی سائنسدان تھیں جن کے لہو سے مظلو میت کا نیا باب رقم ہونا تھا ۔ قوم کی اس مظلوم بیٹی کانام ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے ۔ 
اپنے دیس کی آزاد فضاؤں پہ نا ز کرنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی30مارچ 2003کو اپنے تین بچوں ( محمد احمد ، مریم بنت محمد ، اور سلمان) کے ہمراہ راولپنڈی جانے کے لیے ٹیکسی میں ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہوئی ۔ مگر انہیں راستے میں ہی اغوا کرکے امریکی فوجیوں کے حوالے کر دیا گیا ۔ اس وقت ان کی عمر 30سال کے لگ بھگ تھی اور ان کے سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر ایک ماہ تھی ۔ 
اس خفیہ کاروائی کے بعد ملکی وزراء اس واقعے سے لا علمی کا اظہار کرتے رہے ۔ تاہم عالمی اداروں نے شک ظاہر کیا کہ بگرام میں امریکی جیل میں موجود قیدی نمبر 650ڈاکٹر عافیہ ہی ہیں۔ میڈیا نے جب اس معاملے کا نوٹس لیا تو امریکہ نے اعلان کر دیا کہ ڈاکٹر عافیہ کو 27جو لائی 2008کو افغانستان سے گرفتار کرکے نیو یارک پہنچا دیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ ان سارے واقعات کے دوران کیا بیتی کفار نے اس کلمہ گو مظلوم مسلم خاتون کے پر کیا کیا مظالم ڈھائے ؟ اس کے سامنے قرآن کریم کی کیسے بے حرمتی کی جاتی رہی اور اب تک اس مظلوم بہن اور بیٹی پر کیا گزر رہی ہے ، یہ ایک الگ داستان ہے ، جس کو لکھتے ہوئے سچ مچ قلم ڈگمگا جاتا ہے ۔ الفاظ شر مندہ کرتے ہیں اور کاغذ قلم کے نیچے سے سرک جاتا ہے ۔
مارچ کے مہینے کو اس خاتون کے ساتھ خصوصی وابستگی ہے ، کیونکہ اسی ماہ کے ابتداء میں اس نے روئے ، زمین پر قدم رکھا اور اسی ماہ کے آخر میں اپنو ں نے پکڑکر غیروں کے حوالے کر دیا ۔ مصائب اور تکالیف برداشت کرنا تو ایک مسلمان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہوتی ، دکھ اس بات کا ہوتا ہے جب اپنے بھی بیگانے بن جائیں ،جب دشمن تو ہوں ، دوست کوئی نہ ہو ، جب بے بسی تو ہو ، مگر کوئی آس بننے والا نہ ہو ۔ جب اپنے گھر کے رکھوالے ہی اغیار کے نمائندے بن جائیں تو ارمان بکھر جایا کرتے ، امیدیں دم توڑ دیا کرتی ہیں ، سپنوں کے آبگینے کر چیاں بن کر اپنے ہی دل میں پیو ست ہو جایا کرتی ہیں ۔ یہی وہ کیفیت ہوتی ہے ، جب چیخنا چاہیں تو آواز ساتھ چھوڑ دیتی ہے ، رونا چاہیں تو آنسو خشک ہو جاتے ہیں ، بھا گنا چاہیں تو قدم زمین میں پیوست ہو جاتے ہیں ۔ جب انسان ان تما م کیفیات سے گزر کر ٹوٹ بکھرتا ہے تو وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی زندہ لاش بن جاتا ہے ۔
قرآن کی یہ مظلوم حافظہ اور ذہین ترین سائنسدان ڈاکٹر عافیہ کے دل سے اٹھنے والی بے بس چیخیں یقیناًآج عرش کو ہلا رہی ہونگی ۔ مگر نجانے مسلمانوں کوکیا ہو گیا ہے ۔ آج چشم فلک حیران ہے کہ ایک انوکھی مظلوم مشق ستم بنائی جارہی ہے ۔ جس کی چیخیں سننے والا شاید کوئی بھی نہیں ہے ۔ شاید اس کا تعلق کسی قوم سے نہیں تھا ۔ شاید اس کا تعلق کسی امت سے نہیں تھا ۔ 
کیا اس کے ہم وطن اور ہم مذہب انسانوں کے سینے میں اب دل کی جگہ پتھروں نے لے لی ہے ؟کیا ان لو گوں کے ضمیران کو نہیں جھنجوڑتے ؟ ایسے بے شمار سوالات انسانی غیرت کو جھنجوڑ رہے ہیں ۔
اس موقع پر ہم انسانی حقوق کی ان تنظیموں سے بھی سوال کرتے ہیں حقوق انسانی اور حقوق نسواں کے تحفظ کی قسمیں کھاتی پھرتی ہیں کیا ان کی نظر اس مجبور و مقہور خاتون پر نہیں پڑتی ، جس کا جسم آج چھلنی چھلنی ہے ۔ جو چلنے پھرنے سے قاصر ہے ۔ انصاف کے دعویدار وہ لو گ کہاں ہیں جودوسروں کے خون کے عوض انصاف بانٹتے پھرتے ہیں کیا ان کو ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کی کوئی فکر نہیں ؟
اس مو قع پر ان مذہبی رہنماؤں کو بھی پکارنا چاہوں گا ، جو خود کو اسلامی عقائد اور فقہ کا محافظ تصور کرتے ہیں ۔ اور رسول خدا3 کی غلا می میں جاں سے گزر جانے کا دعویٰ رکھتے ہیں ۔ کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی مظلوم بہن کوغیروں کے شکنجے میں تڑ پتا چھوڑ کر بھی عبادت کرنے میں لطف آتا ہے ؟ کیا تمہارے ذکر کی پکاریں مظلوم عافیہ کی چیخوں پہ بھی بھاری ہیں ؟ کیا تمہارے تسبیح کے گرتے دانے ، ڈاکٹر عافیہ کے بدن سے ٹپکتے لہو کے قطروں پہ بھی بھاری ہیں ؟
کیا قالینوں پہ ادا ہونے والے آپ کے سجدے ، کفار کے طمانچے کھا کر ڈاکٹر عافیہ کو لگنے والی چو ٹوں پہ بھی بھاری ہیں ۔ 
کیا تمہارے فروعی اختلا فات ڈاکٹر عافیہ کے مسئلے سے زیادہ اہم ہیں۔
ہم اپنے ان حکمرانوں سے بھی پو چھتے ہیں کہ کیا ذاتی مفادات کا تحفظ ہی سیا ست کہلا تا ہے ؟ کیا ان حکمرانوں کو اس دن کا خوف نہیں کرنا چاہیے ، جب ان کو بھی قدرت تخت اقتدار سے اتار کر تحت دار پہ لے آئے کیا آپ کا یقین نہیں ہے کہ اصل پاور امریکہ نہیں مظلوم عافیہ کے طاقتور پرور دگار کے پاس ہے آئیے! اپنے سیاسی ، سماجی ، مذہبی اور اخلاقی ذمہ داریوں کی فکر کو کچھ دیر کے لیے اپنے ذہن سے نکال کر ایک طرف ہم مظلوم عافیہ صدیقی کو رکھیں اور دوسری طرف خود کو رکھیں اور سوچیں کہ کہا انسانیت اسی کردار کانام ہے ۔ کیا مسلمانی اتنی سی چیز ہی ہے کیا غیرت اسی کو کہتے ہیں کہ اپنی بہنیں اور بیٹیاں پکڑ کر چند سکوں کے عوض بیچ دی جائیں ۔کیا مظلوم عافیہ کے بارے میں میڈیاپر آنے والی خبریں ہماری غیرت کو بیدارکرنے کے لیے کافی نہیں۔
آئیے ایک مظلوم کی رہائی کے لیے اور اللہ غضب سے بچنے کے لیے ایک ایسی موثر تحریک کا آغاز کریں جو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی پر منتج ہو کیونکہ اس حالت میں ہمارے ضمیر کی یہ پکار زور پکڑ رہی ہے کہ:۔ 
ع آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے 

No comments:

Post a Comment