اس بلاگ میں سے تلاش کریں

Friday, November 16, 2012

لہو ہمارا بھلا نہ دینا

جنت نظیر ریاست جموں و کشمیر بنیادی طور پر 7بڑے ریجنوں وادی کشمیر ، جموں ، کارگل ، لداخ ، بلتستان ، گلگت اور پونچھ اور درجنوں چھوٹے ریجنوں پر مشتمل ہے ۔ یہ ریاست 84ہزار 471مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے ۔ اس ریاست کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے ۔ ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ دس کروڑسال قبل یہ خطہ سمندر میں ڈوباہو ا تھا مگر آہستہ آہستہ خطے کی سرزمین وجود میں آئی اور اس عمل کو بھی 10کروڑ سال گزر چکے ہیں ۔ ہزاروں سالہ تاریخ کا جب مطالعہ کیا جاتا ہے تو کبھی کشمیر کی ریاست دہلی سے کابل تک اور کبھی لداخ سے سندھ کے ساحل کراچی تک پھیلی نظر آتی ہیں ۔آج کی دنیا جس ریاست کی بات کرتی ہے وہ 15اگست 1947ء میں قائم ریاست جموں و کشمیرہے اور اقوام متحدہ میں پوری ریاست متنازعہ قرار پائی ۔
15اگست 1947ء تک قائم ریاست جموں و کشمیر کا مجموعی رقبہ 84ہزار 471مربع میل جبکہ ایک اندازے کے مطابق آبادی ایک کروڑ 70لاکھ سے کچھ زائد ہے ۔ یہ ریاست دنیا کے تینوں پہاڑی سلسلوں (قراقرم، ہمالیہ ، ہندوکش )میں پھیلی ہوئی ہے ۔
اس وقت یہ ریاست 4حصوں میں تقسیم ہے ۔ جو 3ممالک پاکستان بھارت اور چین کے کنٹرول میں ہے ۔ پاکستان کے پاس 28ہزار مربع میں گلگت ، بلتستان اور ساڑھے 4ہزار مربع میل آزاد کشمیر کا علاقہ ہے ۔ گلگت ، بلتستان کی آبادی تقریباً 20لاکھ جبکہ آزاد کشمیر کی آبادی تقریباً 33لاکھ ہے ۔ 
بھارت کے زیر قبضہ علاقوں میں وادی کشمیر ، جموں اور کر گل لداخ وغیرہ شامل ہیں جنکی مجموعی آبادی تقریبا ایک کروڑ 15ہزار ہے ۔ چین کے پاس 10ہزار مربع میل اقصائے چن کا علاقہ ہے جو 10ہزار مربع میل کے علاقے تک پھیلا ہوا ہے ۔ چین کے اس علاقے میں کوئی آبادی نہیں ہے ۔ یہ علاقہ چین کے مسلم اکثریتی صوبہ سینگ کیانگ کا حصہ ہے ۔ چین نے کچھ علاقہ 1963ء کی جنگ میں بھارت سے چھینا جبکہ 1900مربع میل علاقہ پاکستان سے 16مارچ 1963ء میں پاک چین معاہدے کے تحت عارضی طورپر حاصل کیا ہے ۔ اہل کشمیر کی مظلومیت کی طویل شب تار کاآغاز 16مارچ 1946ء میں ہوا ۔ جب معاہدہ امرتسر طے پایا اس معاہدے کے مطابق گلا ب سنگھ نے انگریز سے 75لاکھ نانک شاہی میں جموں و کشمیر اور ہزارہ کا علاقہ خرید کر غلام بنایا ، جبکہ گلگت بلتستان ، کارگل اور لداخ ریجنز کے علاقوں پر قبضہ کر کے ایک مضبوط اور مستحکم ریاست قائم کی ۔ کشمیر کی مزاحمتی جدو جہد کا مطالعہ کیا جائے تو ڈوگرہ حکمرانوں کے دور میں 1924ء تک سیاسی خاموشی نظر آتی ہے ۔یہ خاموشی 1924ئمیں اس وقت ٹوٹی جب سری نگر میں کام کرنے والے ریشم کے کارخانوں کے مزدوروں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی اور پوری ریاست نے ان کی آواز کے ساتھ آواز ملائی ۔ 
1931ء میں تحریک مالیہ عدم ادائیگی کا آغاز کیا گیا ۔ اس کے علاوہ 1946ء میں شیخ عبداللہ کی کشمیر چھوڑدو تحریک اور دیگر تحریکوں نے کشمیر کے مسلمانوں کو ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد کرنے پر تیار کیا ۔ 24اکتوبر 1947ء کو موجودہ آزاد کشمیر میں آزاد حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ حکومت کے قیام کے ساتھ ہی مجاہدین نے سری نگر کی طرف رخ کیا ۔ سری نگر تک کے علاقے پر قبضہ کیا اور مہاراجہ کشمیر دارلحکومت سے بھاگ کر جموں چلے گئے ۔ اِس وقت بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370کے تحت کشمیر کوخصوصی حیثیت دی ہوئی ہے جبکہ پاکستان نے آزاد کشمیر میں 1947ء میں ہی آزاد ریاست قائم کر دی ۔ 1947ء سے 1966ء تک کشمیر یوں نے سیاسی میدان میں آزادی کی جنگ لڑی مگر اس میں کوئی کامیابی نہ ہوئی ۔ 1966ء میں عسکری جدوجہد کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں یکم جنوری 1989ء سے 31 جنوری 2011ء تک 93ہزار 549افراد شہید ہوئے ۔ جن میں 6ہزار 982افراد کو حراست میں شہید کیا گیا ۔ ایک لاکھ 18ہزار 989افراد گرفتار ہوئے ۔ ایک لاکھ 5ہزار901مکانات اور عمارتیں تباہ ہوئیں ۔ 22ہزار 749خواتین بیوہ ہوئیں ۔ ایک لاکھ 7ہزار 400بچے یتیم ہوئے یہ توصرف وہ اعداد و شمار ہیں جو رکارڈ میں ہیں جبکہ کہا جاتا ہے کہ 20سے 30فی صد ایسے واقعات کا اندارج ہی نہیں ہو پاتا ۔
27اکتوبر 1947ء سے 31دسمبر1998تک بھارتی جارحیت کے نتیجے میں تقریبا 50ہزار سے زائد بے گناہ افراد خون کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں ۔ 
غیور مسلمانان کشمیر کی اس جدو جہد کی تائید کرنے اور ان کی حمایت میں پہلی مرتبہ 1990ء میں سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی اپیل پر یوم یکجہتی کشمیر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ۔
اب تک ہر سال تسلسل کے ساتھ یہ دن منا یا جاتا ہے اور کشمیر کے مجاہدین اور شہداء کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ۔ آج 2012ء میں 5فروری کی تاریخ ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ناصرف ہم کشمیریوں کی اخلاقی حمایت کا اعلان کریں بلکہ اپنی پالیسیوں کا بھی جائزہ لیں اور اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کہیں ہم کشمیری مجاہدین کے خون سے غداری کے مرتکب تو نہیں ہو رہے کہیں امن کی خواہش کے نام پر ہماری دینی اور قومی غیرت کا جنازہ تو نہیں نکالا جارہا ہے ۔ 
لاکھوں کشمیریوں کے مجرم ، ظالم ، قاتل ، سفاک اور قابض ملک تجارت کیلئے موسٹ فیورٹ کنٹری کا درجہ دینا ہمارے قومی وقار اور دینی غیرت کے خلاف تو نہیں ۔ کہیں کشمیری مجاہدین کی مدد سے ہاتھ کھینچ لینا بے وفائی تو نہیں ۔ ہندو بنیے کی تہذیب و تمدن کو پاکستانی تہذیب و تمدن جیسا قرار دینا دوقومی نظریے کے قتل کے مترادف تو نہیں ۔ اگر ہم اصلاح احوال کے ارادے سے اپنے گریبان میں جھانکیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ ہم اپنے شہداء کے خون سے وفا نہیں کر پا رہے ۔ اللہ رب العزت نے ہمیں کس قدر خوبصورت جنت ارضی کا مالک بنایا ہے ۔ مگر ہم کس قدر کمزور ہیں کہ اپنی اس خوبصورت دنیاوی جنت کو ٹکڑے ٹکڑے کروا بیٹھے ہیں ۔ جس طرح ابتداء میں ذکر کیا گیا ہے کہ خطہ کشمیر جو مسلم اکثریتی خطہ ہے ، مختلف حصوں میں بٹ چکا ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ درمیان میں ہی معلق ہے ۔ یہ سب کچھ بھی برداشت کیا جاسکتا ہے مگر یہ تلخی برداشت کے قابل نہیں ہے کہ بے شمار مجاہدین اپنے خون کے عطیے پیش کر چکے ہیں اور آج بھی سراپا سوال ہیں کہ :۔
اور کتنوں کا لہو چاہیے تجھے اے ارض وطن 
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا 
دوسری طرف ہماری سیاسی قیادت اپنے معمولی مفادات کی حرص میں کھو کر اس خونی جدو جہد پر پانی بہانا چاہتی ہے۔کبھی تجارت اور کبھی امن کی خواہش کے نام پران شہداء کے خون سے مذاق کر رہی ہے،جنہوں نے اپنی آنکھوں میں آزادی کا سپنا تو سجایامگر اس خواب کی تعبیرکی حسرت ہی لے کر اس دارِفانی سے کوچ کر گئے۔اگر یہ شہداء بارگاہِ خدا وندی میں سر خرو ہو چکے ہیں قرآن کے مطابق وہ زندہ ہیں بلکہ امر ہو چکے ہیں مگر ہمارے کاندھوں پر وہ خون کا ایسا قرض چھوڑ گئے ہیں جس کو چکانے کا صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم جدو جہد آزادی کشمیر میں اہل کشمیرکی مکمل حمایت کریں اور اہل کشمیر کی محبت کو ماند نہ پڑنے دیں ورنہ نہ ہمیں تاریخ معاف کرے گی اور نہ ہی ہماری آنے والی نسلیں ہماری اس کوتاہی کا نظر انداز کر پائیں گی۔
آئیے ! آج 5فروری کو ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے حوصلے بڑھائیں شہدا ء کو خراج تحسین پیش کریں اور احتساب بھی کریں کیونکہ آج یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر ان بے شمار بے گناہ شہداء کا خون پکار پکار کر ہر غیرت مند پاکستانی کو جھنجوڑ رہا ہے ۔
شہید تم سے یہ کہہ رہے ہیں ، لہو ہمارا بھلا نہ دینا 
قسم ہے تم کو اے سرفروشو لہو ہمارا بھلا نہ دینا 
ہے دین کا دشمن وہ عزتوں کا لٹیرا دشمن 
لہو میں بھیگے دریدہ آنچل ، قسم ہے تم کو بھلا نہ دینا 
وہ اجڑا گلشن ویران گلستان وہ جلتے باغ اور اداس کلیاں 
ہماری ماؤں کے بہتے آنسو ، قسم ہے تم کو بھلا نہ دینا 
جنہوں نے گلشن کے پھول مسلے ، حسین چمن کی کلیاں ہیں روندیں 
وہ ہاتھ پاؤں ہی کاٹ ڈالوں ، یہ فرض اپنا بھلا نہ دینا 
وضو ہم اپنے لہو سے کر کے خدا کے ہاں سُر خرو ہیں ٹھہرے 
ہم عہد اپنا نباہ چلے ہیں ، تم عہد اپنا بھلا نہ دینا 

No comments:

Post a Comment