اس بلاگ میں سے تلاش کریں

Friday, November 16, 2012

اس بار چاند رات میں کچھ بھی نہیں رہا

نظام قدرت ہے کہ وقت گزرتا چلا جاتا ہے رکتا نہیں نہ ہی اپنی رفتار میں تبدیلی رونما کرتا ہے۔ہر سال چاروں موسم بارہ ماہ اور ان مہینوں سے وابستہ تہوار،بہاریں خوشیاں اور دکھ آتے ہیں اور انسان کو دکھ یاسکھ دے کر چلے جاتے ہیں ۔ہر گزرتا لمحہ یادوں کے دامن میں ایک اور گرہ لگا کر گزر جاتا ہے۔دکھ سکھ بانٹتے ہوئے یہ لمحات ہمارے کاندھوں پرکچھ ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ڈالتے ہیں جس کا احساس ہمارے دین اسلام نے بار بار دلایا ہے مثلاًحج کا موسم آیاتو دین نے عازمین حج پر لازم ٹھہرایا کہ عازم حج اپنے کندھے پر کسی کا حق اٹھائے ہوئے نہ ہو،اس نے کسی کا قرض نہ دینا ہو ،اپنے ہمسائے کے حقو ق سے غافل نہ ہو۔جب روزے کا موسم آیا تو اسلام نے سحری اور افطاری کے اوقات میں روزہ داروں کو تا کید کی کہ کھانے پینے کے امور میں دیگرمسلم غربا ء کو شامل کریں تا کہ معاشرے میں غربت کے چیلنج کا مقابلہ کیا جا سکے ۔اس کے علاوہ اہل ایمان کی روحانی تربیت کرکے حب مال کے روگ کو ان کے دل سے نکالا جا سکے حقیقت یہ ہے کہ دورہ حاضرہ کی ہوس مال و زر ہی وہ خزاں ہے جس نے احساس محبت کے سایہ دار شجر کو خزاں بریدہ کر دیا ہے خصوصاًسرمایہ دارانہ نظام معیشت نے تو انسان کے دل سے انسانیت کا دکھ درد چھین لیا ہے اور سچ تو یہ ہے اس کافرانہ نظام معیشت نے انسان کے قلوب واذہان کے اندر ظالمانہ تصوارات اور افکار کو اس حد تک پختہ کر دیا ہے کہ ظلم اور سنگدلی ہمارے کاروباری مزاج کا حصہ بن گئی ہے صورت حال یہ ہے کہ جب تک ایک سرمایہ دار اپنے ملازم کو زر خریدا غلام نہ سمجھے وہ اس وقت تک اپنے آپ کو پختہ بزنس مین نہیں سمجھتا درحقیقت آج بھی قارون سرمایہ دار کی شکل میں ہم پر مسلط ہیں اور اپنی استطاعت کے مطابق علم و ادب کا خون کرنے اور غریب ،مجبور مزدور کا خون چوسنے میں مصروف ہیں ۔سرمایہ دار کی اجارہ داری نے ایک بگاڑ یہ بھی پیدا کیا ہے کہ ادب،علم،فن،روحانیت،اور مذہب تمام کے تمام شعبے ظالم اوربے رحم درندے یعنی سرمایہ دار کی غلامی میں چلے گئے یہی وجہ ہے کہ آج وہی ادب پارہ شائع ہو کر شہرت پاتاہے جس کے پیچھے کسی سرمایہ دار کا سرمایہ خرچ ہوا ہو اور زیادہ خرچ سے بہتر انداز میں پبلش ہوا ہو وہی فن پارہ عروج پکڑتا ہے جس کو سرمایہ دار کی سپورٹ حاصل ہو آج کوئی بھی تعلیمی اداراہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اس پر اندھی انویسٹمنٹ نہ کی گئی ہو یہی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کا پرنسپل وہی ہوتا ہے جو جاہل ترین متکبر اور ظالم سرمایہ دار ہوتا ہے اس علم کے جاہل قاتل کی غلامی میں جکڑا ہوا ایک استادکس نفسیاتی کیفیت میں گرفتارہوکر مستقبل کے معماروں کی تعمیر کرنے سامنے آتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔اس نظام نے مذ ہبی مدرسوں اور خانقاہی نظام کو بھی اپنے منحوس پنجوں میں لے رکھا ہے اب ایک مدرسہ چلانے یا خانقاہ چلانے کیلئے بھی ایک ایک سرمایہ دار کی خوشامد کرنا پڑتی ہے جو نام و نمود کے حصول کیلئے پیروں اور مولویوں کے ساتھ سودا بازی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک عالم منبر رسول ﷺ پر بیٹھ کر اور ایک پیر مسند طریقت پر بیٹھ کر ایک رشوت خور،سود خور اور دین کے باغی سرمایہ دار کی خوشامد کرنے پر مجبورہو جاتا ہے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس دوران ہماری کیا ایمانی اور روحانی کیفیت ہوتی ہو گی اور نفسا نفسی کے عالم میں معاشرے میں ایک غریب کا کیا مقام اور مرتبہ رہ جاتا ہے تعجب ہوتا ہے کہ دوسروں کا خون چوس کر امارت کا مزا لوٹنے والا ایک خونخوار اور درندہ صفت سرمایہ دار اللہ کی کسی پکڑکا شکار ہوتا ہے تو پورا معاشرہ مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے اس کیلئے ڈاکٹر آرام اور اچھی غذا تجویز کرتے ہیں ، علاج معالجے کیلئے وی ۔آئی ۔پی انتظام کیا جاتا ہے ،مگر ایک غریب زمیں پر ایڑیاں رگڑتا مر بھی جائے تو کسی کے کان پہ جوں بھی نہیں رینگتی۔سچ تو یہ ہے مسند طریقت پر بیٹھاپیر بھی ایک امیر سرمایہ دار کو تو پورا پورا پروٹوکول دیتا ہے مگر ایک غریب سے بات کرتے ہوئے چہرے کی سلوٹیں نہیں سمیٹ پاتا ۔
یہاں پر مسئلہ امیر کی امارت یا غریب کی غربت نہیں اصل مسئلہ امیر اور غریب کے درمیان روا رکھے جانے والا وہ امتیا زی سلوک ہے جس کی مذمت قدم قدم پردین اسلام نے کی ہے اور آج اسی امتیاز نے ہمارے معاشرے کو اپنے منحوس پروں میں لپیٹ لیاہے او ر ہمارے سماجی اور مذہبی طبقے اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں ۔آج کے تاجر سیاستدان سے لے کر عالم اور پیر تک تمام لوگ سرمایہ داریت کی چکا چوند کرنے والی چمک سے متاثر ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ اب علم اور طریقت کا فیض بھی گویا بکنا شروع ہو گیا ہے ۔میں اپنے قارئین کو دعوت دیتا ہوں کہ ہم اپنی انفرادی زندگیوں سے اس فکر کے خلاف بغاوت کریں آئندہ ہمارے عزت و احترام کا معیار وہی ہونا چاہئے جو اسلام نے ہمیں دیا ہے۔ آئیے ہم اپنے آپ کے ساتھ یہ پختہ عہد کرلیں کہ ہمارے درمیان محترم وہ ہو گا جو صاحب تقویٰ ہو گا وہ چاہے کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو ،چاہے وہ کسی عہدے پر براجمان نہ ہو،اس کا کوئی وسیع کاروبار اور اس کے پاس کوئی سرمایہ نہ ہو ۔ہمارے نزدیک ذلیل ہو گا و شخص جو اللہ اور اسکے رسول اللہ ﷺکے احکامات کا باغی ہوخواہ وہ کتنے بڑے دنیاوی عہدے کا مالک ہی کیوں نہ ہو ۔اور ہم ہر ایسے معاشی،معاشرتی یا سیاسی نظام کا انکار کرتے ہیں جو اسلام کے علاوہ کوئی اور ہوکیونکہ ہمارے ایمان کی بقا صرف اور صرف ان ناپاک او رباطل افکار اور نظاموں سے برأ ت کے اظہار میں ہی ہے ۔
اس موقع پر آنے والی اس عید کا ذکر بھی کروں گا جو اہل ایمان کے درمیان اسلامی اخوت کے اظہار یعنی حج کا بھی لازوال موقع فراہم کرتی ہے ،اس کے علاوہ قربانی کا عظیم الشان جذبہ بھی پیدا کرتی ہے درحقیقت یہ قربانی ایک پریکٹس ہے تا کہ اہل ایمان اپنی خواہشات ،تمناؤں اور اور اپنی ناجائز محبتوں کے گلے پر چھری پھیرنے کے بھی قابل ہو جائیں ۔اس عید پر ہم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بھی یا درکھنا ہیں جن کے خوشحال گھرانوں کو کفار نے لوٹ لیا ہے ۔افغانستان ،عراق،فلسطین،کشمیر کے ان لٹے پٹے خانوادوں کے لئے دعائیں اور حسب توفیق مدد کرنی ہے ،جو صرف اور صرف اس خطا کا خمیازہ بھگت رہے ہیں کہ وہ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہو کر آزادی کی آرزو رکھتے ہیں ،ان لٹے پٹے سندھی بھائیوں اور تمام مسلمانوں کو بھی یاد رکھنا ہے جو سیلاب اور زلزلے جیسی آفات کا شکار ہو کر بے یار ومددگار کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ڈینگی کے ان تمام متاثرہ خاندانوں کے ساتھ بھی اظہار یکجہتی اوراظہار ہمدردی کرنا ہے جن کے اپنے ان سے کھو گئے ہیں ،ڈرون حملوں میں شہید ہونے والوں کے ان لواحقین کو بھی نہیں بھولنا ،جو بدلا لینا چاہتے ہیں اپنوں کے لہوں کا ،مگر سمجھ نہیں پا رہے کہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں ۔
ہر اس دکھی دل کے ساتھ ہم نے یہ عید گزارنی ہے جس کا کوئی زخم تازہ ہو رہا ہے ،جس کو اس سال کسی کی کمی محسوس ہو رہی ہے اس کا آنچل آنسو صاف کر کے زبان حال سے یہ کہہ رہا ہے ۔
اس بار تو بھی شہر بدر ہو گیا اسد
اس بار چاند رات میں کچھ بھی نہیں رہا

No comments:

Post a Comment