اس بلاگ میں سے تلاش کریں

Friday, November 16, 2012

اے سید ابرار کے دلدار سپاہی

ماہ دسمبر کومسیحائوں سے گہری نسبت ہے اس ماہ کی 25تاریخ عیسائیوں اور مسلمانوںکو انکے مسیحا کے یاد دلاتی ہے عیسائی اپنے مسیحا کو اپنے مذہبی روایات کے مطابق یاد کرتے ہیںاور مسلمانان پاکستان اپنے مسیحا سپاہی کواپنے تاریخی حقائق کے حوالے سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
مولانا عبدالستار خان نیازی نے ایک دفعہ اپنے مسیحا پر ناز کرتے ہوئے عیسائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھاکہ تمھارا مسیحا توتمہارے بقول ایک بارمصلوب کیا گیا مگر ہمارا مسیحااپنی قوم کی خاطر سالہا سال سولی پر لٹکتا رہا۔ہمارے محبوب قائد کی یہ قربانیاں اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیںمگر ہماری بد قسمتی ہے کہ ہندو بنیے کے ذہنی غلام ،اسلام اور پاکستان کے غدار بعض مذہبی اور سیاسی مفاد پرست اور گمراہ ٹولے حضرت قائد اعظم واکبرمحمد علی جناح کی شان میں ہر زہ سرائیاں کرتے ہیںان کی دینی اور روحانی حیثیت کو مشکوک کرنے کی کوشش کرتے ہیںاس لئے مناسب یہی ہے کہ حضرت قائد اعظم کی زندگی کے دینی اور روحانی پہلوئوں کی جانب نہایت اختصار سے اشارہ کر دیا جائی۔
حضرت قائد اعظم کو قدرت نے منافقت اور گفتارو کردار میں تضاد کی خامی سے مطلقاًپاک رکھا ہے قائد اعظم جو کلمات اپنی زباں سے ادا فرماتے تھے ان کلمات کی لاج بھی رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کی جلوتوںکی گفتاراور خلوتوں کے کردار میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔
قرآن کریم اہل ایمان کیلئے رشد و ہدایت کا سر چشمہ ہے حضرت قائد اعظم  بھی قرآن کو ہی اپنا آخری رہبر و رہنما تصور کرتے تھے آپ کے نظریات قرآن و حدیث کے بارے میں وہی تھے جو ایک صحیح العقیدہ مسلمان کے ہونے چاہئیں۔5مارچ946ء کوشیلانگ کے مسلمانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم   نے فرمایا :اور ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنی مقدس کتاب قرآن مجید کی تعلیم کی طرف رجوع کریںہم کو احادیث اور اسلام کی زبر دست روایات پر عمل کرنا چاہئیے اگر ہم قرآن مجید کے احکامات پر عمل پیرا ہوں احادیث اور اسلامی روایات کوصحیح طور پر سیکھیں اور سمجھیںتو ہماری ہدایت کیلئے ان میں تمام احکامات اور ہدایات موجود ہیں۔
حضرت قائد اعظم اسلام کے سوا کسی نظام سے مطمئن نہیں تھے بلکہ ان تمام نظاموں کو باطل اور کافرانہ نظام قرار دیتے تھیحضرت قائد اعظم نے اسلام کے مقابلے میں آنے والے تمام باطل نظاموں کا مکروہ چہرہ قوم کے سامنے بے نقاب کرتے ہوئے 26نومبر946ء کو نئی دہلی میں تحریک پاکستان کے کارکن ڈاکٹر سید بدرالدین احمد سے گفتگو کے دوران فرمایا تھا۔’’مسٹربدرالدین میں مطمئن ہوںکہ قرآن و سنت کے زندہ جاوید قانون پر مبنی ریاست (پاکستان ) دنیا کی بہترین اور مثالی سلطنت ہو گی یہ اسلامی ریاست اسی طرح سوشلزم ،کیمونزم ،مارکسزم،کیپٹل ازم کا قبرستان بن جائے گی جس طرح سرور کائنات کا مدینہ اس وقت کے تمام نظام ہائے فرسودہ کا گورستان بنا‘‘اسی گفتگو میں ایک جگہ فرمایا:’’سوشلزم ،کیمونزم مارکسزم،کیپٹل ازم،ہندو ازم،امپیریل ازم ،امریکہ ازم،روس ازم،ماڈرن ازم یہ سب دھوکہ اور فریب ہیںمختصر یہ سمجھ لویہ نمرود،قارون،شداد،اور ہرمزدک کے نظریات ہیںجنھیں نئے رنگ میں پیش کیا جا رہا ہے آ پ اسے کیوں نہیں سمجھتے کہ ان نظاموں علمبردارایسے لوگ تھے جو انسانوں کے لباس میں بھیڑیے تھے اور آج بھی ایسے لوگ ان کی علمبرداری کر رہے ہیں‘‘ قائد اعظم نے اپنی اس طویل گفتگو میں مزید فرمایاکہ ’’میں تو اسلام کے کامل نظامِ زندگی،خدائی قوانین کی بادشاہت پر یقین رکھتا ہوں‘‘
رسول خدا کی مثال پیش کرتے ہوئے قائد اعظم  نے فرمایاحضرت محمد  بیک وقت صدر مملکت اور پیغمبر تھے آپ   کے نظام سلطنت کاڈھانچہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے بہترین ہی۔حضرت قائداعظم کے ان فرمودات سے یہ بات کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ آپ انسان کے بنائے نظاموں سے بیزار تھی۔نظام اورقانون سازی کے اختیار کامالک صرف اللہ تعالیٰ کوہی سمجھتے تھی۔ان فرامین سے حضرت قائداعظم کی سیاسی فکراور اسلام سے گہری وابستگی کھل کرسامنے آجاتی ہی۔اب ہم حضرت قائدکے چند ذاتی اورخلوت میں پیش آنے والے واقعات کاذکر کریں گی۔عبدالرشید بٹلر بیان کرتے ہیں(یہ واقعہ روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی نے بھی 25دسمبر 1997ء میں شائع کیا)
قائداعظم گورنرہائوس پشاور میں آئے تورات دوبجے میں نے انھیں کافی پیش کی۔اس وقت سردار عبدالرب نشتر بابائے قوم سے ملاقات کے لیے گورنرہائوس میں موجود تھی۔وہ ملاقات کرکے کوئی اڑھائی بجے کے لگ بھگ چلے گئے ہونگے کہ سیکورٹی والوں نے مجھے طلب کرلیا کیونکہ اس شب قائد کے کمرے سے جانے والا آخری سرکاری اہلکارمیں تھا۔سیکورٹی والوں نے مجھ سے پوچھا کہ اس وقت کہیں کوئی شخص تونظر نہیں آیاکیونکہ جس کمرے میں قائداعظم ٹھہرے تھے اس سے ٹھک ٹھک کی آوازیں آرہی تھی۔سکیورٹی والوں کوخدشہ ہوا کہ قائداعظم پرکو ئی حملہ نہ کیا جارہاہو۔ان کے دروازے پردستک دینے کی کسی کوجرات نہ تھی۔چنانچہ مجھے ایک روشندان سے جھانک کرقائداعظم کے بارے میں معلوم کرنے کاکہاگیا۔یہ کام نہایت رازداری سے ہورہاتھا۔میںنے جونہی روشندان سے اندر جھانکاتودیکھا۔قائداعظم فرش پرچل رہے تھی۔اوران کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھی۔یہ بات میرے لیے تشویش کاباعث بنی اورمیں اس کی وجہ معلوم کرنے کے لیے روشنداں سے جھانکتارہا۔لکڑی کے فرش پرچلنے کی وجہ سے قائداعظم کے جوتوں کی آواز پیدا ہورہی تھی۔اورجب آواز رک جاتی تووہ کمرے میں موجود انگیٹھی پراپنی دونوں کہنیاں رکھ کرایک کتاب سے کچھ پڑھتے اورپھرٹہل ٹہل کراس پرغور کرتے اورروتی۔سکیورٹی والوں نے مجھے بتایا کہ قائدنے کمرے میں انگریز ی ترجمے والا قرآن رکھاہوا ہے اس پرمیں سمجھ گیا کہ قائداعظم ایک یادوآیات پڑھ کران کاترجمہ پڑھنے کے بعد کمرے میں گھوم گھوم کران پرغور کرتے اوریہ معانی ومطالب ان کی آنکھوں میں آنسوئوں کاموجب ہیں۔قائداعظم کے سپاہی منیراحمد کہنے لگے کہ یہ توبابا ئے قوم کاروزانہ کامعمول ہے اسی طرح منشی عبدالرحمن خان اپنی کتاب قائداعظم کامذہب اور عقیدہ میں مولانا شبیر علی تھانوی کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ مولاناحسرت موہانی نے بیان کیاہے کہ میں ایک روز جناح صاحب کی کوٹھی پرصبح ایک نہایت ضروری کام سے پہنچا۔ملازم سے میں نے اطلاع کرنے کوکہا۔ملازم نے کہاکہ اس وقت ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں ۔آپ تشریف رکھیئے تھوڑی دیر میں جناح صاحب خود تشریف لے آئیں گی۔‘‘
چونکہ مجھے نہایت ضروری کام تھا،اورمیں اس کوجلد سے جلد جناح صاحب سے کہنا چاہتاتھااس لیے مجھے ملازم پرغصہ آیا اورخود کمرہ میں  چلا گیاایک کمرے سے دوسرے کمرہ میں پھر تیسرے کمرہ میں پہنچاتو برابر کے کمرہ سے مجھے کسی کے بہت ہی بلک بلک کررونے اورکچھ کہنے کی آواز آئی۔آواز چونکہ جناح صاحب کی تھی۔اس لیے میں گھبرایااورپردہ آہستہ سے اٹھایا تودیکھتاہوں کہ جناح صاحب سجدہ میں پڑے ہیں۔اوربہت ہی بے قراری کے ساتھ کچھ مانگ رہے ہیں۔میں دبے پائوں وہیں سے واپس آگیا۔اوراب توجب جاتاہوں اورملازم کہتاہے کہ اندر ہیں تومیں سمجھتاہوں کہ سجدہ میں پڑے دعاکررہے ہیں۔میرے تصور میں ہروقت وہی تصور اوروہی آواز رہتی ہی۔
اسی طرح نواب صدیق علی خان اپنی کتاب بے تبغ سپاہی میں بیان کرتے ہیں کہ انگلستان کے بادشاہ جارج ششم کے زمانے میں قائداعظم انگلستان تشریف لے گئی۔گفت وشنید جاری تھی کہ قصر بکنگھم سے ظہر انہ کی دعوت موصو ل ہوئی۔مگر حضرت قائداعظم نے احترام رمضان کے پیش نظرت شاہی دستر خوان کویہ کہہ کرٹھکرادیاکہ 
’’یہ رمضان المبارک کامقدس مہینہ ہی۔اس میں مسلمان روزے رکھتے ہیں۔‘‘مذکورہ واقعات اوران جیسے دیگر بے شمارواقعات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہی،کہ قائداعظم ایک پکے سچے اورصصحیحالعقیدہ مسلمان تھی۔نہ صرف وہ اپنی ذات میں اسلام کے پابند تھے بلکہ اسلام کوبطور نظام پاکستان میں بھی نافذ کرناچاہتے تھی۔
محمد سلیم ساقی اپنی کتاب مقام واحترام قائداعظم میں آپ کاایک جملہ نقل کرتے ہیں۔کہ قائداعظم نے فرمایا کہ میں پاکستان میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ کانظام لاناچاہتاہوں ۔‘‘
 ’’گویا قائد کے لئے نمونہ عمل مغربیت نہیں بلکہ خلافت راشدہ تھی‘‘
میں اپنے اس محبوب قائداعظم کے بارے میں مزید کچھ بھی نہیں کہوں گابلکہ 109برس کے بزرگ کابیان نقل کرکے فیصلہ قارئین پرچھوڑوں گا۔یہ بیان حضرت امیرملت پیرسید جماعت علی شاہ صاحب کاہے جوانھوں نے بنارس میں اپریل 1946میں 500کے لگ بھگ مشائخ عظام 7000علماء کرام اوردولاکھ مسلمانوں کے عظیم مجمع کے سامنے دیاتھاآپ نے فرمایا۔
میں کہتا ہوں کہ وہ (محمد علی جناح )ولی اللہ ہے آپ لوگ اپنی رائے سے کہتے ہیں میں قرآن وحدیث کی روسے کہتاہوں ۔ہے کوئی مائی کالال مسلمان جس کے ساتھ ہندوستان کے دس کروڑمسلمان  والہانہ محبت رکھتے ہوں ۔۔۔۔؟یہ توقرآن کافیصلہ ہے اب رہی میری عقیدت تو تم اس کوکافرکہومیں اس کوولی اللہ کہتاہوں۔آج میں وہ اشعاربھی دہراناچاہوں گاجوعلامہ پیر محمد عبدالصبور بیگ باغدروی نے وزیر آباد کے مقام پرجلسہ میں 1943ء میں اپنے قائد کی شان میں پڑھے تھی۔
اے سید ابرار کے دلدار سپاہی 
توحید ورسالت کے پرستار سپاہی 
اسلام کی عظمت کے علمدار سپاہی 
آزادی کامل کے طلب گار سپاہی 
اٹھ قوم کی بگڑی ہوئی تقدیر بنا دے 
ہر بچہء مسلم کو جہانگیر بنا دے 
اے سید ابرار کے دلدار سپاہ

No comments:

Post a Comment