اس بلاگ میں سے تلاش کریں

Friday, November 16, 2012

سال نو کی کرنو تم کو گلے سے اب جو لگا لیا ہے

ماہ دسمبرایک سال کی تکمیل کا پیغام ہے اسی ماہ پرانا سال نئے سال کی ساعتوں کو خوش آمدید کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے الوادع ہو جاتا ہے۔وقت کی رفتار ایک بارپھر خواہشات جذبات ، سپنوں ارمانوں،آرزؤں کو مات دے کر بہت آگے نکل جاتا ہے۔بے شمار سپنوں کے آبگینے ٹوٹ بکھرتے ہیں بے شمار جذبات کی کرچیاں بکھر جاتی ہیں۔جو آئندہ طویل عرصے تک دل میں چبھن کا باعث بنتی ہیں۔شاید یہی جذباتی پن شعراء کو بے تاب کرتا ہے اور وہ طویل طویل نظمیں اسی ماہ دسمبرکے نام کر دیتے ہیں،کوئی اپنی افسردگیوں اور دکھوں کا الزام دسمبر کے سر یوں تھونپتا ہے:۔
دسمبر آج بھی اپنے ا ثاثے ساتھ لایا ہے
وہی تیور وہی افسردگی اور سرد سا لہجہ
بعض واوقات تو لفظوں کا کھیل کھیلنے والے یہ دیوانے کھلاڑی اپنی جھونپڑی کی ویرانی کا سبب بھی اس سر د مزاج مہینے کو ہی قرار دیتے ہیں:۔
بہت محسوس ہوتی ہیں مجھے شامیں دسمبر کی
مجھے زندان لگتا ہے انہی شاموں میں گھر اپنا
دسمبر سے یہ شکر رنجیاں لفظی شکوے شکایتیں اپنی جگہ تا ہم یہ حقیقت بھی چھپائے نہیں چھپتی کہ افسردہ،نرم اور دکھی لوگوں کودسمبر کی گہری سرد تاریک اور طویل راتوں سے خاص نسبت ہے۔مایوس اور ٹوٹے دلوں کو ان گہری راتوں میں دنیاکے منافقانہ اورشاطرانہ رونقوں سے چھٹکاراملتا ہے۔مناظر قدرت سے قُرب نصیب ہوتا ہے خاموشی اور تنہائی کی صحبت نصیب ہوتی ہے۔اپنے آپ سے دل کی بات کہہ ڈالنے کا موقع میسر آ جاتا ہے کسی الزام کے خوف سے بے نیاز ہو کراپنا حالِ دل چھیڑنے کا وقت مل جاتا ہے۔ملائیت کے فتوؤں سے بے خوف ہو کرقدرت کی جھولی میں سر رکھ کر،اشک ریز ہو کرشکوے شکایتیں کرنے کا بھی لطف حاصل ہو جاتا ہے انہی راتوں میں کبھی کبھار خود پہ دیوانگی طاری کر کے لمبی لمبی راہوں پہ بے نشان منزل کا راہی بننے کا شوق انگڑائی لینے لگتا ہے اور کبھی کبھاران راتوں کا حال یوں بھی ہوتا ہے کہ:۔
یادوں کی شال اوڑھ کر آوارہ گردیاں
کاٹی ہیں ہم نے یوں بھی دسمبر کی سردیاں
تا ہم جب یہ افسردہ ،تنہا،مجبورآوارہ گرد دنیا کی بے ثباتی اور گزرتے دسمبر کی رفتار کا ادراک کر لیتے ہیں اور یہ یقین ہو جاتا ہے کہ یہ سکوت اور یہ لمحات عارضی ہیں تو دل میں نئی فکر انگڑائی لیتی ہے کہ:۔
یہ سب رستے کے ساتھی ہیں ،انہیں آخر بچھڑنا ہے
چلو اب گھر چلیں محسن ،بہت آوارگی کرلی
دسمبر کے اواخر میں یہی بچھڑے ہوئے اہل دل ان سرد رُتوں اورگہری راتوں کے مہاراجہ دسمبر کا دامن چشم تصور میں پکڑ لیتے ہیں اور لجاہت سے التجا کناں ہوتے ہیں کہ:۔
’’دسمبر ‘‘ٹھہر جاؤ نا!
ابھی لمحے نہیں بکھرے
ابھی موسم نہیں بچھڑے
میرے کمرے کی ٹھنڈک میں
ابھی کچھ دھوپ باقی ہے
مگر گزرتے لمحے کب کسی کی سنتے ہیں اور پھر وہی ہوتا ہے جس کا ڈر دل کو کھائے مار رہا ہو تا ہے اوردسمبر کے پُر لطف لمحات جذبات کو قدموں تلے روندتے ہوئے بیت جاتے ہیں اور دسمبر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچھڑ جاتا ہے۔جب دسمبر اپنی اداس رُتیں سمیٹتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ جاتا ہے تو سال نو طلوع ہوتا ہے۔گویا سردی،غموں،دکھوں اور اداسیوں کے طعنے سہنے کے بعدبالآخریہ مہینہ اپنے خون کا ایسا چراغ جلا کر الوادع ہوتا ہے جس کی پہلی کرن ہی لاتعدادتمناؤں،خواہشوں اور آرزؤں کے اَن کھلے غُنچوں کو تازگی عطا کر کے انسانی قلب کو خوبصورت آرزؤں کا گلزار بنا دیتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہوخواہش کرنے پہ کون سا پابندی ہے کچھ اچھا سوچ لینے پہ کون سا کوئی گرفت ہے۔
آج 2012عیسوی کے آغازپہ ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم خواہش اور امید اپنے دل ودماغ میں سجا کر رکھیں کہ یہ سال ہماری مصیبتوں کے خاتمے کا سال ہو گا۔یہ سال عالمِ اسلام کی سر بلندی اور کفر کے زوال کا سال ہو گا۔بحیثیت پاکستانی ہمیں یہ امید بھی ہے کہ اس سال پاکستان کو سیاسی استحکام حاصل ہو گا۔اس سال اس پاک سر زمین پہ کوئی سیلاب اور کوئی زلزلہ نہیں آئے گا۔اس سال کوئی ڈرون پاک سرحدوں کی حرمت پامال نہیں کرے گااب کی بار کوئی حکومت امریکہ سمیت کسی استعماری قوت کے سامنے نہیں جھکے گی ۔
ہمیں اس نئے سال کے آغازپر یہ امید باندھنے کا حق بھی حاصل ہے کہ امریکہ کو تجارتی فوائد پہنچانے کیلئے بھارت جیسے سفاک اور قاتل ملک کو’’موسٹ فیورٹ کنٹری‘‘قرار دینے کا فیصلہ بھی واپس لیناہو گا۔اور کشمیری مجاہدین کی اخلاقی،مالی اور عسکری امداد میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ہم یہ بھی امید لگانا چاہتے ہیں کہ اس سال قدرتی گیس ،بجلی اور پٹرول جیسے قدرتی وسائل کے بحران اور لوڈ شیڈنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔مہنگائی اور بے روز گاری میں کمی آئے گی ہم ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے اور اس نظام کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔
سیاسی اُفق پہ بدلتے حالات کا جب جائزہ لیں تو یہ خواہش انگڑائی لیتی ہے کہ مصر،تیونس،لیبیا سمیت دنیابھر کے اسلام پسندانقلابیوں کوان کے جمہوری حق کے مطابق اسلامی حکومت اور اسلامی نظام کاتحفہ بھی اس نئے سال میں ہی مل جائے۔ہم تو یہ خواہش بھی کرتے ہیں کہ مظلوم مقبوضہ فلسطین کوآزادی حاصل ہو جائے۔کاش اس نئے سال میں طلوع ہونے والی سورج کی کرنوں میں ایسی تاثیر ہوتی کہ یہ کرنیں ہر مظلوم کو ظلم سے ،غریب کو غربت سے،مجبور کو جبر سے،غلام کو غلامی سے،گنہگار کوگناہوں سے،کافر کو کفر سے،منافق کو منافقت سے پاک کر دیتیں۔
مذکورہ بالایا ان سے ملتی جلتی خواہشیں ہم ہر نئے سال اپنے دل ودماغ میں بساتے ہیں اور ان کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں مگر یہ آرزوئیں کبھی تکمیل کو نہیں پہنچتیں۔چونکہ خواہش کرنے پر کوئی پابندی نہیں اس لئے کسی کو بھی اس طرح کی خواہش سے روکا نہیں جا سکتاتا ہم ایک گزارش ضرور کی جاسکتی ہے کہ اگر ہم ان خواہشوں کی تکمیل کے بھی خواہاں ہیں تو پھر ہمیں اپنے فکر و عمل اور کردار میں تبدیلی لانا ہو گی۔دنیا میں مثبت انقلاب لانے کی تحریک کا آغازہمیں اپنے اندر تبدیلی لا کر کرنا ہو گا۔اگر ہم دنیا کے ظالم اور جابر نظاموں کے خلاف بغاوت کرنے کا سوچتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے سینے میں موجودمسلط فرعون کا تختہ الٹنا ہو گااور وقت ضائع کئے بغیردنیا کی استعماری قوتوں کے خلاف بھی میدان عمل میں اترنا پڑے گا۔سالِ گزشتہ کی تلخیوں کواپنی ناکامی یا کمزوری پر محمول کئے بغیران سے سبق سیکھنا ہوگااور اپنے لئے راہِ عمل کا تعین کرنا پڑے گا۔گزرتے ہوئے ماہ و سال کا یہ سلسلہ انسانی جذبات،خیالات اور افکارپر بہر حال اثر اندازہوتا ہے اور اسی اثر کو قبول کرتے ہوئے کی گئی اپنی شاعری میں سے ایک مختصر حصہ قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں:۔
ماہِ دسمبرکی بچھڑی یادو ذہن سے نکل بھی جاؤ نا
گہری شب میں جگاکے مجھ کو یوں نہ اب ستاؤ نا
مجھے تسلی دینے والی زبان کے پیارے پیارے لفظو
ذہن سے کیوں نکل گئے ہو آؤ اب یاد آؤ نا
سال نو کی کرنو تم کو گلے سے اب جو لگا لیا ہے
میری امیدوں کا کوئی غنچہ تم آکے کھلاؤ نا

No comments:

Post a Comment